اقبال کا تصورِ ریاست

Nov 09, 2018

ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم

کسی قوم کیلئے ریاست کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی خاندان کیلئے گھر۔ قوموں کی اجتماعی زندگی میں نظریہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ قوموں کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظریات مل کر ایک نظام حیات ترتیب دیتے ہیں۔ نظریہ کی بدولت قومی زندگی کا نظام وجود میں آتا ہے۔ کوئی نظریہ اپنانے کیلئے جرأت اور قوت برداشت کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ انسان نظریات کی چھتری کے بغیرنہیں رہ سکتا۔ اگر اسے نظریات کی چھتری میسر نہ ہو تو وہ نہ صرف جانور بن جاتا ہے بلکہ دنیا کے ہر جانوراور درندے سے بھی زیادہ خونخوار ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانان برصغیرپاک و ہند کیلئے نظریات کی چھتری مہیاکی۔ مسلمان قوم کو خواب غفلت سے بیدار کر کے سیاسی شعور پیدا کیا۔ دسمبر 1930ء میں علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد کی صدارت کی اور اپنے خطبہ میںفرمایا کہ ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب،سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔ شمال مغربی برصغیر میں مسلم ریاست کا قیام مسلمانوں کا مقدر بن چکا ہے۔،، علامہ اقبال نے کا یہ خطبہ الٰہ آباد مسلمانوں کیلئے روشنی کا ایسا مینار بنا جس نے منزل کی نشاندہی کی جس کے بغیر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے مسلم ریاست کے تصور کی حقیقت کیا ہے۔
علامہ اقبال نے 29 دسمبر1928ء کو آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقدہ دہلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں بحیثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد ازجلد اپنی اصلاح و ترقی کے لئے سعی و کوشش کرنی چاہئے۔ اور جلد از جلد ایک علیحدہ پولیٹیکل پروگرام بنانا چاہئے۔ آپ جانتے ہیں ہندوستان کے بعض حصے ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ان حالات میں ہم کو علیحدہ طور پر ایک پولیٹیکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ (محمد رفیق افضل ۔گفتار اقبال) علامہ اقبال روایتی اسلامی ریاست مثلاً خلافت، امامت، امارت، سلطانیت یا بادشاہت نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ جدید مسلم ریاست کے قیام کا درس دیتے تھے۔
فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی تخلیقی کتاب ’’افکار اقبال‘‘ تشریحات جاوید میں اس نقطہ کی یوں وضاحت کی ہے۔ ’’اقبال کے نزدیک توحید اساس ہے، استحکام انسانیت مساوات اور حریت کی اور ازروئے اسلام ریاست کا مقصد ہی یہی ہے کہ مسلمان ان عظیم اور مثالی اصولوں کو نہ صرف حاصل کریں بلکہ دنیا بھرمیں انہیں نافذ کر کے ظاہر کریں۔ اقبال نے اپنے تصور ریاست کے پہلے بنیادی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے مسلم استحکام کی بجائے ’’استحکام انسانیت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ انکے خیال میں مسلمانوں کو اپنے آپ کو روحانی طور پر دنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ آزاد سمجھنا چاہئے۔ اس بنا پر کہ آئندہ کوئی وحی نازل نہ ہو گی وہ فرماتے ہیں کہ اسلام کامقصد جو اب تک صرف جزوی طور پر حاصل ہو سکا ہے۔ ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ آج کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی اجتماعی معاشرتی زندگی کو ایسے ہی بنیادی اصولوں کی روشنی میں تعمیر کریں تاکہ اس ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا حقیقت میں انعقاد ہو سکے جو اسلام کا اصل نصب العین ہے۔ (حوالہ۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ )
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
علامہ اقبال کی آرزو تھی کہ مسلمانوں کوانفرادی خودی اور اجتماعی خودی کی اہمیت کااحساس دلا کر ایک جدید طرز کا مسلم معاشرہ قائم کیا جائے جو رنگ و نسل، زبان اور علاقہ کی بنیادوں کے بجائے اشتراک ایمان پر قائم ہو اس طرح اشتراک ایمانی اور جمہوریت روحانی پر مبنی معاشرہ دور جدید کی تمام تر ضرورتوں کو پورا کریگا جس میں لوگ آزادی سے رہ سکیںگے۔مسلمان قوم کیلئے آزاد مقتدر مستحکم اور طاقتور ریاست میں حقوق العباد پورے کرنے کا اہتمام و انتظام ہو، غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں، جبر کا زور ختم ہو اور اپنی مرضی سے اللہ کے اصولوں کے مطابق خیر و عافیت سے زندگی گزار سکیں ظلمت کی سیاہ رات ختم ہو گی۔
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار
نکہت خوا بیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
فکر اقبال کا مطالعہ کریں تو پہ چلتا ہے کہ اقبال کی نگاہ میں اسلامی ریاست چلانے کیلئے اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا جائیگا۔ اس طرح دین اور ریاست کا آپس میں چولی دامن کاساتھ ہو گا۔ اس سلسلہ میں سید عبدالواحد کی مرتب کردہ کتاب ’’مقالات اقبال‘‘ مضمون ’’جغرافیائی حدود اورمسلمانان ‘‘میں درج ہے۔
’’قوم رجال کی جماعت کا نام ہے اور یہ جماعت بااعتبار قبیلہ، نسل، رنگ، زبان، وطن اور اخلاق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ملت ایسی سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک کردہ بنائے گی۔ گویا ملت یا امت جاذب ہے اقوام کی۔ خود ان میں جذب نہیں ہو سکتی۔
قرآن کی رو سے حقیقی سیاسی یا تمدنی معنوں میں قوم دین اسلام سے ہی تقویم پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن صاف صاف اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ کوئی دستور العمل جو غیر اسلامی ہونا معقول اور مردود ہے۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیری
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیروی
ہوئی دیں و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
علامہ اقبال کے خیال میں شوکت یعنی طاقت کا ہونا ضروری ہے شوکت کی بنیاد اسلامی ہو۔ پسماندہ اقوام ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اب خلافت کا دور بھی واپس نہیں آتا اس لئے مسلم ممالک آپس میں تجارت کر کے اپنے رشتے بہتر طور پر استوار کر سکتے ہیں۔ ایک تو علامہ اقبال نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا نظریہ پیش کیا کیونکہ یہاں مسلمان قوم ہی صیح معنوں میں قوم کہلانے کی حقدار ہے۔ دوسرا نظریہ علامہ اقبال نے ملتِ اسلامیہ کا پیش کیا کہ پورے عالم اسلام کا اتحاد ہے تمام مسلم ریاستیں ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ کسی ایک کو تکلیف پہنچے تو سب اس مدد کو پہنچ جائیں اس سے مسلم اتحاد، یگانگت اور عالمگیر اخوت اجاگر ہوتی ہیں جو اسلامی ثقافت و تعلیمات کے اہم نقاط ملیں۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کا شعر
مسلم اتحاد ایک ایسی طاقت ہے جس کی طرف دیگر اقوام میلی آنکھ سے نہیں دیکھیں گی۔ علامہ اقبال خطبہ الٰہ آباد سے پہلی بار برصغیر پاک و ہند میں مسلمان کی مشکلات حالات و واقعات کی گہرائی اور منزل کی صیح نشاندہی ہوئی۔ انہیں احساس ہونے لگا کہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت ہی متعدہ مسائل کا حل ہے کیونکہ کئی سو سال حکومت کرنے والی مسلمان قوم انگریز دور میںدر پردہ ہندوئوں اور انگریزوں کے مسلم دشمن اتحاد کا نشانہ بنی۔ علامہ اقبال کی تعلیمات سے انفرادی اور اجتماعی خودی کے نظریات کے پیش نظر مسلمان ایک زندہ قوم اور اسلام ایک دستور حقیقت اور نظام زندگی ہے۔
اسی لئے فکر اقبال میں مغربی طرز ریاست اور اسلامی انداز ریاست میں فرق بیان کیا گیا ہے۔ کہ مسلمان دین کی بنیار پر سودا نہیں کرتا محض جمہوریت کی خاطر دین سے ہاتھ نہیں دھوتا۔ ان کا خیال تھا کہ مغربی جمہوری نظام بظاہر تابناک ہے لیکن حقیقت میں چنگیزی پائی جاتی ہے۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارا
مسلم قومی ریاستوں کو پسماندہ اقوام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں اشیائے خورو نوش، پینے کیلئے صاف پانی کی نایابی اور سر چھپانے کیلئے گھر، تن ڈھانپنے کیلئے کپڑے کی قلت، لا علاج بیماریاں، علاج معالجہ کا فقدان، بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ، آبادی میں بے حد اضافہ، جہالت اور نا خواندگی میں اضافہ مہنگائی اور پیداوار میں کمی مسلمان میں مسلسل عدمِ تحفظ کا احساس بلند ہو رہا ہے ان سب مشکلات و مسائل کا حل صرف اور صرف صیحح معنوں میں مسلم ریاست کا قیام اور اتحاد بین الاقوامی مسلمین میں ہے یہی علامہ اقبال کا اقتدار ریاست ہے۔ علامہ اقبال یہ بھی بصیرت رکھتے تھے کہ مستقبل میں ترقی یافتہ اقوام پسماندہ مسلم اقوام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی۔ فی زمانہ سوپر پاور امریکہ ہے اور مسلم کا اتحاد پارہ پارہ ہے ۔سیاسی اقتصادی اور ٹیکنیکی استحصال سے بچاؤ کیلئے مسلم اقوام پر مشتمل " جمعیت اقوام" کی بے حد ضرورت ہے۔ روس کے خاتمہ کے بعد امریکہ کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے "جمعیت اقوام" کی ترکیب متعارف کرائی تا کہ اتحاد اقوام مسلمانان عالم قائم ہو سکے۔
طہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
علامہ اقبال مسلمانوں کو جدید معاشرہ قائم کرنے کی تلقین کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ جہان تازہ انکے تصورات کو عملی جامہ پہنانے ہی سے وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ روحانی جمہوریت کے بعد علامہ اقبال کے تصور اسلامی ریاست کا دوسرا بنیادی اصولی مساوات ہے جس کے تحت تمام افراد کے بنیادی حقوق کو تحفظ دیا جائے گا۔ تیسرا اصول حریت یا آزادی ہے۔ ان کا خیال یا خواہش تھی کہ منتخب نمائندے اسلامی فقہ اور جدید قوانین سے بھی آشنا ہوں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔
فکر اقبال میں تمام نقاط کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اجتہاد پر بے حد زور دیا ہے۔ اسلامی ریاست کی ثروج و ترقی کیلئے بھی حالات وواقعات ضروریات کے پیش نظر قوانین میں ترمیم اجتہاد سے کی جاسکتی ہیں۔ اسلام کے بنیادی اصول وہی رہیں لیکن قدامت پسندی کو پس پشت ڈال کر مسلسل تخلیقی عمل کے لئے اجتہاد کا راستہ اپنایا جائے۔ اجتہاد کرنے کے لئے قابل زیرک اور معاملہ فہم مجتہد ہونے ضروری ہیں۔
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

مزیدخبریں