وفاقی محکموں میں 78ہزار، خود مختار اداروں میں 92ہزار اسامیاں خالی

اسلام آباد (خبر نگار) قومی اسمبلی کو حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ وفاقی اداروںمیں78ہزار623 اورخود مختار اداروں وکارپوریشنز میں 92614آسامیاں خالی ہیں، گزشتہ5سالوں کے دوران پاکستان ریلوے نے191ارب روپے خسارہ کیا، مون سون 2018کے موسم کے دوران ملک بھر میں 47ملین پودے لگائے گئے،وزیراعظم آفس کی گاڑیوں کی فروخت کرنے کیلئے اخبارات کو ایک کروڑ56لاکھ 68ہزار روپے کے اشتہارات دیے گئے، پیمرا کی جانب سے ملک میں 88پاکستانی نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس جبکہ 33غیر ملکی چینلز کو پاکستان میں نشریات کی اجازت دی گئی ،پاکستان ریلوئے کے وفاقی و صوبائی اداروں کے ذمہ2715ملین روپے واجب الادا ہیں۔جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے سوالوں کے جواب وفاقی وزیر فواد چوہدری اور وزرائے مملکت زرتاج گل اور علی محمد خان نے دئیے۔ رکن شاہدہ رحمانی کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کو سالانہ 5ارب روپے دئیے جاتے ہیں مگر آمدن اس کے مقابلے میں کچھ نہیں،جو ادارے خسارے میں ہیں ان کی عمارتوں کو کام میں لایا جائے گا،حکومت اداروں کا بہتر بنانے کے لیے ملکی تاریخ کی سب سے جامع اصلاحات لا رہی ہے،گزشتہ حکومت نے اداروں کو غیر ملک ادارے سمجھ کر چلایا،ماضی میں جن اداروں کو لوٹا گیا ان کو قابل افراد کے ذریعے اپنے پاں پر کھڑا کریں گے۔طاہرہ اورنگزیب کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا کہ مون سون 2018کے موسم کے دوران ملک بھر میں 47ملین پودے لگائے گئے ۔چوہدری برجیس کے سوال کے جواب میں وزارت ریلوے نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا کہ یکم جنوری 2013سے ستمبر2018تک پاکستان ریلوے نے 201.719ارب روپے آمدن حاصل کی جبکہ اسی عرصے کے دوران پاکستان ریلوے نے 392.698ارب روپے کے اخراجات کئے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزارت اطلاعات نے اپنے تحریری جواب میں آگاہ کیا کہ پیمرا کی جانب سے ملک میں 88پاکستانی نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری کئے گئے جبکہ 33غیر ملکی چینلز کو پاکستان میں بھی نشریات کی اجازت دی گئی ، وزیراعظم آفس کی گاڑیوں کی فروخت کیلئے اخبارات کو ایک کروڑ56لاکھ 68ہزار روپے کے اشتہارات دیے گئے ۔رکن ڈاکٹرنفیسہ شاہ کے سوال کے جواب میں کابینہ ڈویژن نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا کہ وفاقی سول ملازمین کی وفاقی اداروں میں منطورشدہ تعداد 6لاکھ49ہزار176ہے جبکہ 5لاکھ70ہزار553ملازمین کام کر رہے ہیں جبکہ وفاقی اداروں میں 78ہزار623آسامیاں خالی ہیں ۔ اسی طرح وفاقی خود مختاراداروں وکارپوریشنز میں منطور شدہ آسامیوں کی تعداد4لاکھ88ہزار667ہے جن پر 3لاکھ96ہزار53ملازمین کام کر رہے ہیں اور خود مختار اداروں وکارپوریشنز میں 92614آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت مختلف وزارتوں ، ڈویژنوں میں 4095آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں ۔ رکن مسرت رفیق مہیسر کے سوال کے جواب میں وزارت ریلوے نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کوآگاہ کیا کہ پاکستان ریلوے کے وفاقی اداروں کے ذمے 945ملین جبکہ صوبائی اداروں کے ذمے 1770.401ملین کے واجبات ہیں ، صرف محکمہ دفاع نے 831.082وزارت ریلوے کے دینے ہیں ۔وفاقی وزیر برائے بجلی عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ بجلی چوری اور کنڈا سسٹم کی روک تھام کے لئے اے بی سی کیبل کی تنصیب کا کام آئندہ سال موسم گرما تک مکمل کرلیں گے‘ جن علاقوں میں بجلی چوری یا کنڈا سسٹم ہے وہاں پر لوڈشیڈنگ نہ کئے جانے کی گارنٹی نہیں دے سکتے‘ بقایا جات کی وصولی کے لئے لائحہ عمل بنارہے ہیں‘ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرک‘ پشاور میں اربوں روپے کے لائن لاسز ہیں۔ ناصر موسیٰ زئی کے پشاور شہر میں ٹاسک فورس کی جانب سے بجلی کے گھریلو صارفین کی بجائے صنعتی اور تجارتی صارفین کے مسائل کو ترجیح دینے سے متعلق توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں وزیر برائے بجلی عمر ایوب نے بتایا کہ ہماری حکومت نے بجلی کے ٹیرف میں نیپرا کی تجویز سے بہت کم اضافہ کیا۔75 فیصد اس اضافہ سے مستثنیٰ ہیں۔ 95 فیصد صنعتی صارفین بھی اس اضافہ کی زد میں نہیں آتے۔ ہم نے ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ جن کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کرتا ہے۔ یہ ٹاسک فورس بجلی کے غیر قانونی کنکشن کو قانونی بنانے اور بجلی کی چوری روکنے کے لئے اقدامات کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرک‘ پشاور میں اربوں روپے کے لائن لاسز ہیں۔ ملک کب تک یہ خسارہ برداشت کرے گا۔ نچلے سٹاف کی ملی بھگت سے یہ کام ہو رہا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائیں گے۔ جہاں پر چوری ہو رہی ہے وہاں پر لوڈشیڈنگ ہوگی۔ اے بی سی کیبل متعارف کروا رہے ہیں۔ دوسرے مرحلہ میں سمارٹ میٹر متعارف کرائیں گے۔ 90 کروڑ ڈالر کی انوسٹمنٹ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نور عالم خان نے کہا کہ غریب صارفین پر 10 سے 15 لاکھ تک بھی بل دیئے گئے۔ ان کے جواب میں عمر ایوب نے بتایا کہ پارلیمنٹرینز کو اعتماد میں لے کر اقدامات کریں گے۔ آئندہ سال موسم گرما تک کوشش ہوگی کہ اے بی سی کیبل رہائشی علاقوں میں نصب کردی جائے گی اس سے کنڈے کا خاتمہ ہوگا اور بجلی چوری رکے گی۔ ایسے صارفین کے ذمہ بقایا جات کی وصولی کے طریقہ کار کا تعین کیا جارہا ہے۔ بعدازاں سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس آج جمعہ کو دن ساڑھے دس بجے تک کیلئے ملتوی کردیا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...