علامہ اقبالؒ کی شاعری میں جن تصورات نے علامتوں کا لباس اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔شاہین کی خصوصیات ہی وہ ایک سچے مومن اور مسلمان میں چاہتے تھے۔ انہوں نے شاہین کا استعمال اپنے کئی اشعار میں کیا ہے لیکن ایک شعر ان کا زبان زد عام ہے۔…؎
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر!
تو شاہیں ہے‘ بسیرا کر‘ پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقبال کی شاعری میںتصور شاہین خاص اہمیت کا حامل ہے‘ وہ امت مسلمہ کے ہر نوجوان میں شاہینی صفات دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ایسا شاہین جس کی پرواز آسمان کی وسعتوں کو چیر دے۔ جو مشرق سے مغرب تک کے آسمانوں پر اپنی بادشاہت قائم کرے۔ جو اپنے لئے جہان تازہ تلاش کرے اور اس کیلئے افکار تازہ کی نمو کرے۔ آج کچھ لوگ یاس کا شکارہیں۔ ان کو آسمان پر گدھوں کے پروں کی آواز تو سنائی دیتی ہے لیکن وہ شاہینوں کو شاید دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ اقبال کے شاہین ہی تھے جنہوں نے شاعر مشرق کے خواب کی تعبیر کیلئے متحدہ برصغیر کے گھر گھر جاکر دو قومی نظریئے کا پرچار کیا اور انگریزوں‘ ہندوؤں اور سکھوں کے جبر کے سامنے سینہ سپر ہوئے اور تحریک پاکستان میںجان ڈالنے کیلئے اپنی جان و مال کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ یہی وہ شاہین تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے دوران اپنی جان و مال کی قربانیاں دے کر وطن عزیز پاکستان کو عطیہ خداوندی ثابت کیا اور دنیا کے نقشے پر مدینہ پاک کے بعد دوسری ایسی ریاست قائم کر دکھا جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی اور مسلمانوں نے ہجرت کرکے اس میں پناہ لی۔
مدینہ پاک بھی بت پرستوں سے نجات کیلئے بنا اور پاکستان بھی دنیا میں واحد بت پرست ریاست بھارت کیخلاف قائم ہوا۔قیام پاکستان کے بعد وہ اقبال کے ہی شاہین تھے جنہوں نے 1948ء میں مکار بنیئے کی پہلی چال کو ناکام بنایا اور بھارت کی جا رحیت کو الٹاکر اسے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی اپیل کرنے پر نہ صرف مجبور کردیا بلکہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے استصواب کا وعدہ کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ یہ اقبال کے شاہین ہی تھے جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں بھارت کا چند گھنٹوں میں لاہور فتح کرنے کا خواب نہ صرف چکنا چور کیا بلکہ 17دن کی جنگ میں بھارت کے سرحدی علاقے پر قبضہ بھی کیا اور اقبال کے شاہینوں نے ہی بھارت کی فضائی قوت ایک ہی دن کے حملوں میں تہس نہس کرکے رکھ دی اور اقبال کے شاہینوں نے ہی کلمہ شہادت پڑھ کر دنیا کا سب سے بڑا ٹینکوں کا حملہ ناکام بناکر سیالکوٹ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بناکر رکھ دیا۔یہ اقبال کے شاہین ہی تھے جنہوں نے ایوب خان سے بارہا اجازت مانگی کہ ہم عوام بھارت کا رخ کرکے اسے دنیا کے نقشے سے مٹادیتے ہیں۔
1998ء میں اقبال کے شاہین ایک بار پھر اس وقت میدان میں اترے جب بھارت کی جانب سے اس وقت کا خوفناک ہتھیار ایٹم بم کا تجربہ کرکے ہمیں مرعوب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اقبال کے شاہینوں نے دشمن سے زیادہ ایٹمی طاقت دکھاکر اسکے خواب ایک بار پھر چکنا چور کردیئے اور دنیا نے دیکھا کہ چاغی کی فضائیں اﷲ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھیں اور پہاڑ روئی کی طرح اڑ گیا۔ بھارت کو دندان شکن جواب بھی ملا اور الحمدﷲ پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا بھر کی ساتویں ایٹمی قوت بن کر انشاء اﷲ ہمیشہ کیلئے ناقابل تسخیر قرار پایا۔بھارت اپنے بڑے حجم ‘ آباد ی اور زیادہ اسلحے کے زعم پر اپنی حماقتوں سے باز نہیں آرہا اور اسے اب تک شاید اس بات کا مکمل ادراک ہی نہیں ہورہا کہ پاکستان اقبال کے شاہینوں کی سرزمین ہے جسے علامہ اقبال اس انداز میں بیان کرتے ہیں…؎
گر تو ہے ہوا گیر تو ہوں میں بھی ہوا گیر
آزاد اگر تو ہے‘ نہیں میں بھی گرفتار
اقبال اپنے شاہین کی صفات کو ایک اور جگہ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں…؎
اک مرغ سرا نے یہ کہا مرغ ہوا سے
پردار اگر تو ہے تو کیا میں نہیں پردار
موذی یہ بات سمجھ نہیں رہا اور ایک بار پھر 2019ء کے اوائل میں بھارت نے اقبال کے شاہینوں کو للکارا اور پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کرکے چند درختوں کو ہی نقصان پہنچا پایا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی حملے کے مترادف ہے ۔ بھارت نے تو خوف کے مارے خاموش حملے کی حماقت کی لیکن اقبال کے شاہینوں نے بھارت کو اعلانیہ بدلہ لینے کی نہ صرف دھمکی دی بلکہ اعلانیہ طور پر دن بتاکر 6اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا اور بھارت کے حملہ آور دو طیارے مارگرائے اور ابھی نندن کو ایسی چائے پلائی جو بھارتی عوام کو تاحیات یاد رہے گی۔ بھارت اب بھی باز نہیں آرہا لیکن ابھی نندن کے معاملے میں قانونی محاذ پر ڈٹے ہوئے اقبال کے شاہینوں نے اسے عالمی عدالت میں بھی دھول چٹا دی۔
اقبال کا شاہین محب وطن ہوگا‘ غدار کبھی بھی خود کو اقبال کا شاہین نہیں کہہ سکتا۔ اقبال کا شاہین ایسا مومن ہوگا جو سیرت نبیﷺ کو اپناکر اﷲ اور اسکے رسولﷺ پر ایسا ایمان رکھتا ہو کہ یہود و نصاریٰ کی دکھاوے کی قوت اور سازشوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوگا اور اپنے رب پر کامل یقین رکھ کر اسلام اور وطن عزیز پاکستان کے دفاع و سلامتی کیلئے دیوانہ وار میدان عمل میں کود پڑیگا اور اسلام کی سربلندی کیلئے اپنی توانائیاں صرف کریگا نہ کہ یہود و نصاریٰ کی نقالی میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرکے خود کو شاہین کے بجائے اسکائی لیب بنائے پھرتا ہو۔ اقبال کے شاہین اگر دیکھنے ہیں تو پاکستان کی مسلح افواج کے جانباز سپاہی‘ افسران اور اسپیشل سروس گروپ کے اہلکاروں کو دیکھیں جو ایک خاص مشن کی تکمیل کیلئے تمام عالمی‘ مقامی اور موسمی حالات سے قطع نظر ہوکر فطری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور مشن کی تکمیل کو اپنی زندگی کا واحد نصب العین بناکر شہادت کے جذبے سے میدان عمل میں ہمہ وقت موجود ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کو اقبال کے شاہین کی صفات اس طرز پر پڑھائی جائیں کہ انکے رگ و پے میں یہ صفات سما جائیں اور وہ یہود و نصاریٰ کی دولت اور گلیمر سے مرعوب ہونے کے بجائے اپنے دین پر مکمل کاربند رہ کر دین اور وطن کی سربلندی کیلئے خود کو وقف کردیں اور ایسے بے خوف ہوجائیں جیسا علامہ اقبال کی نظر میں اقبال کے شاہین کو بے خوف ہونا چاہئے۔
خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں
٭…٭…٭