پاکستان کی بنیاد اسلام ہے: علامہ اقبال

علامہ اقبال نے مسلمانوں میں وحدت ملی کا شعور بیدار کیا اور ہندو قوم کے تاریخی کردار اور اس کے عصری خطرناک عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے دین و مذہب، جان و مال اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کے لیے اپنی فکری اور عملی توانائیاں وقف کر دیں۔ انہوں نے کہا: ’’ آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل اقوام کی طرح ہو جائے اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک میں فنا ہو جائے۔
علامہ اقبال نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت کا تصور ہزار سالہ اسلامی تمدن کی حفاظت اور بقا کے لیے پیش کیا۔ انہوں نے کہا: ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔
علامہ اقبال اسلام کے بغیر مسلمان کی زندگی کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں کی آزادی کی حفاظت صرف اسلام کے لیے چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا: ’’میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاست سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے جیسا کہ آج کے قوم پرستوں کے رویے سے معلوم ہوتا ہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔‘‘
علامہ اقبال نے نہایت واضح اور بلیغ الفاظ میں فرمایا کہ اگر آپ بحیثیت مسلمان زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو یہ قرآن مجید کے بغیر ممکن نہیں ہے:
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جذ بہ قرآن زیستن
ہماری تاریخ ادب میں اقبال آزادی وطن کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ اس حوالے سے ان کے سازسخن کے نغمات حریت اور استقلال ہیں لیکن وہ اسلام کے بغیر آزادی وطن کا تصور بھی نہ کرتے تھے۔ انہوں نے بڑے غیورانہ لہجہ میں کہا: ’’اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے۔‘‘
علامہ اقبال نے برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ محض اس لیے کیا تھا کہ شریعت اسلامیہ کے نفاذ کے نتیجہ میں ہر شخص کو معاش کی ضمانت مل سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے قائد اعظم کے نام خط میں لکھا: ’’ شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریقہ پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کم از کم معمولی معاش کی طرف اطمینان ہو سکتا ہے لیکن کسی ایک آزاد اسلامی ریاست یا چند ایسی ریاستوں کی عدم موجودگی میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ اس ملک میں محال ہے۔‘‘
یہ دور مسلمانوں کے انتہائی مصائب و مشکلات کا دور تھا۔ وہ اپنی محرومی اور غلامی کا باعث صرف انگریز حکمرانوں کو جانتے تھے اور اس بات سے بے خبر تھے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد جب ہندوستان آزاد ہو گا تو ہندو آزاد ہوں گے۔ مسلمان نہ صرف آزاد نہ ہوں گے بلکہ ایک زیادہ منتقم اور خوفناک دشمن کے ظلم کا نشانہ بن جائیں گے۔
گاندھی نے یہ فتویٰ مولانا ابو الکلام آزاد سے صادر کروایا کہ مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر کے اپنے آبائی مسلمان ممالک کی طرف لوٹ جائیں۔ یہ نسخہ اس لئے پیش کیا گیا کہ ہندوستان کے شمالی مغربی صوبوں میں مسلمان اپنی اکثریت کھو بیٹھیں اور کسی صورت میں بھی حکومت میں نہ آسکیں۔ نہرو رپوٹ میں جو 1928ء میں پیش کی گئی مسلمانوں کے حقوق کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ 1929ء میں کانگرس نے ہندوستان کی مکمل آزادی کا اعلان کیا۔
قائداعظم 1930ء میں منعقد ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن چلے گئے۔ چنانچہ علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی اور الہ آباد میں اپنا تاریخ ساز خطبہ پیش کیا جس میں برصغیرکی تاریخ کو ایک نیارخ دے دیا۔ علامہ نے واضح الفاظ میں مطالبہ کیا کہ: ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب‘ صوبہ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے خواہ اسکے باہر مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔‘‘
علامہ اقبال نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی قومیت کا تصور ترک کر کے اسلامی قومیت کو اپنی شناخت بنائیں کیونکہ اسلام ہی انہیں موجودہ تباہ کن حالات میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔
علامہ اقبال نے اسلام کے احسانات عظیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا جس سے مسلمانان ہند کی تاریخ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدریج متحد ہو کر ایک متمیز اور معین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘
اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا یہ ہے کہ انہوں نے ہندی قومیت کے تصور کی مکمل نفی کی اور مسلمانوں میں اسلامی قومیت کا شعور پیدا کیا۔ اقبال جغرافیائی وطن پرستی کو سب سے بڑا بت سمجھتے تھے۔ وہ اس بت کو پاش پاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اسلام کو زندگی بخش قوت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسانی کونسل و وطن کی قیود سے آزاد کر سکتی ہے۔ جس کا عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر اس کے ہاتھ میں ہے۔ اسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیاجاسکتا۔‘‘
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ چونکہ وہ مکمل نظام حیات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لہٰذا کسی دوسرے نظام کے ساتھ شراکت قبول نہیں کرتا۔ اسلام فرد اور معاشرے دونوں پر یکساں حکم نافذ کرتا ہے۔ اسلام میں سیکولرازم کی کوئی گنجائش نہیں‘ سیکولر ازم لادینیت ہے۔ مذہب اور ریاست ایک ہی وحدت ہیں۔
اقبال نے فرمایا:
اسلام کا مذہبی نصب العین اسکے معاشرتی نصب العین سے جو خود اسی کا پیدا کردہ ہے الگ نہیں۔ دنوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دو سرے کا ترک کرنا بھی لازم آئے گا۔
علامہ نے اسلام کے مفہوم و معانی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: اسلام بحیثیت مذہب کے دین و سیاست کا جامع ہے یہاں تک کہ ایک پہلو سے دوسرے پہلو کا جدا کرنا حقایق اسلامیہ کا خون کرنا ہے۔ اقبال کیلئے اسلام ہی مسلمان کی زندگی ہے۔ کوئی مسلمان اسلام سے باہر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔ انہوں نے فرمایا:
اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔اسلام تمام نوع انسانی کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔ اس دین میں اسود و احمر عرب وعجم اور بندہ و آقا کی تمیز کچھ حکم نہیں رکھتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اے لوگو تمہارا رب ایک ہے‘ تمہارا باپ بھی ایک ہے تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے تھے۔‘‘
٭…٭…٭

ڈاکٹر سید اکرم اکرام

ای پیپر دی نیشن