مولانا مدنی کا موقف تھاکہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں،لہذا برصغیر کے مسلمانوں کی قومیت تو ہندی ہے البتہ ملت کے اعتبار سے وہ مسلم ہیں۔علامہ اقبال ؒ نے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’قوم‘‘ اور ’’ملت‘‘ ایک ہی معانی ہیں۔مسلم قوم وطن سے نہیں بلکہ اشتراکِ ایمان سے بنی ہے۔ اس اعتبار سے اسلام ہی مسلمانوں کی’’قومیت‘‘ ہے اور ’’وطنیت‘‘ بھی۔علامہ نے مزید کہا کہ رسولﷺ اگر اپنے وطن سے ہجرت نہ کرتے اور کفار مکہ کے ساتھ تصفیہ کر لیتے کہ نسل، زبان اور علاقے کے اشتراک کی بنا پر ایک ہوتے ہوئے وہ اپنے خدا کی پرستش جاری رکھیں اور مسلمان اپنے خدا کی پرستش جاری رکھیں گے ، تو آنحضورﷺ سب سے پہلے عرب نیشنلسٹ قرارپاتے ،پیغمبرِ اسلام نہ ہوتے۔اسی طرح مدینہ ہجرت کرنے کے بعد رسولﷺ نے مہاجرین اور انصار کو اشتراکِ ایمان کی بنیاد پر ایک امت ، ملت یا قوم بنا دیا۔
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
زدیو بند حسین احمد ایں چہ بوالعجمی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمدؐ عربی است
اسی اشتراکِ ایمان کی بنیاد پر علامہ اقبال نے دو قومی نظریے کی حقیقت کو تقویت بخشی۔چنانچہ پہلے مسلم قوم وجود میں آئی اور پھر اس کے لئے وطن بصورت پاکستان حاصل کیا گیا۔ظاہر ہے اگر اشترک ایمان کی بنیاد پر مسلم قوم وجود میں نہ لائی جاتی یا اسلام سے ایک قومیت ساز قوت کے طور پر کام نہ لیا جاتا تو’’دو قومی نظریہ‘‘ کی حقیقت کو کوئی تسلیم نہ کرتا۔ اور اس بنیاد پر پاکستان نہ بن سکتا بلکہ کشمیر کوپاکستان کا حصہ سمجھنے میںبھی یہی جذبہ کام آرہا ہے۔ ہم نے اقبال ؒکے تصور کو محض خواب کی تکمیل سمجھ کر کامیابی سے روشن کر دیا جبکہ انہوں نے اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق ’’ماڈل‘‘ اخذ کرنے کی سعی کے بارے میں کہا۔اقبالؒ فرماتے ہیں کہ بعض مسلم ممالک میں منتخب قانون ساز اسمبلیوں کا قیام اسلام کی پاکیزگی کی طرف رجوع ہے ۔ انہوں نے اپنے اشعار میں مغربی جمہوریت کی مخالفت کی اور’’ روحانی جمہوریت‘‘ کی طرف اشارہ دیا۔ اقبال’’ روحانی جموریت‘‘ کی بنیاد’’میثاقِ مدینہ ‘‘ پر رکھتے ہیں۔آپ کی جانب سے عدم وضاحت کے باعث بعض اقبال شناس ’’روحانی جمہوریت ‘‘کو صرف مسلم فرقوں میں رواداری تک محدود رکھتے ہیںاور اس میں غیر مسلموں کو شریک نہیں رکھتے۔ حالانکہ جب یہ اصطلاح استعمال کی گئی ،آپ مقتدر مسلم ریاست ،جس کے اندر ’’روحانی جمہوریت قائم ہونی تھی کا ذکر اپنے خطبے میں فرما چکے تھے بلکہ سید نذیر نیازی کو اپنے خط میں تحریر بھی کر دیا تھا کہ میری مجوزہ مسلم ریاست میں جو برصغیر کے شمال مغرب میں قائم ہو گی ،آبادیوں کے تبادلے کی ضرورت نہیں ۔یعنی اس ریاست میں غیر مسلم بھی موجود ہوں گے ۔لیکن یہاں یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ مجوزہ اسلامی ریاست میںاسلام کیسے نافذ کیا جائے؟ جبکہ اقبال نے ہی فرمایا ہے : جدا ہو دیں سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی اسکی وضاحت اقبال ؒکچھ یوں کرتے ہیں کہ دین کی وہ کونسی تعبیر ہے جو ریاست کو معاشی ناانصافی اور ظلم سے محفوظ رکھتی ہے اور وہ کونسی تعبیر ہے جو شر اور فساد کا سبب بنتی ہے؟ اس ضمن میں آپ اس تجویز کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ریاست کے مختلف شعبوں میں دینیات کا شعبہ الگ کر دیا جائے ۔اس شعبے کا کام مساجد اور مدرسوں کو کنٹرول کرنا ہو ،مدرسوں کے لئے جدید نصاب کا تعین کرنا اور انہیں یونیورسٹیوں سے منسلک کرنا ہو۔اسی طرف حکومت کے سند یافتہ آئمہ مساجد کا تقرر اس شعبہ کی ذمہ داری ہو۔ جب ترکی میں اس طرح کی اصطلاحات نافذ کی گئیں تو اقبال ؒنے جوش و خروش سے خیرمقدم کیا اور فرمایا مجھے اختیار ہو تو میں فوراً یہ اصطلاحات مسلم انڈیا میں نافذ کردوں۔ایک اور قابلِ ذکر بات جو تاریخِ اسلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا ’’سیاسی ڈھانچہ‘‘ خواہ کسی نوعیت کا ہو وہ وجود میں تبھی آتی ہے جب اس میں قوانینِ اسلام (شریعت)کا نفاذ ہو۔رسولﷺ کے عہد امامت میں اسلامی ریاست کے سیاسی ڈھانچے یا دستورکی ایک تحریری مثال جو ہمیں ملتی ہے وہ’’میثاقِ مدینہ‘‘ ہے ۔اسی طرح اقبال ؒفرماتے ہیں کہ دین کو کیسے ملکی سیاست کے ساتھ پیوست کیا جائے کہ ریاست ظلم اور معاشرتی ناانصافی کرنے سے باز رہے اور اسلام کے نفاذ کیلئے سب سے زیادہ زور تعلیمی اداروں میں اسلامی اخلاقیات کی تربیت دینے پر توجہ دے۔اس کیلئے صرف صوم و صلوۃ کی مکینیکل پابندی ہی کافی ہیں بلکہ انسان دوستی ،روداری، حلم،عجز، سادگی ایسی خصوصیات کی ترکیب کے ساتھ طلبا اور طالبات میں تجسس کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ آپکی نگاہ میں طبیعات، ریاضیات یا سائنس کے دیگر موضوعات میں دلچسپی لینا بھی ایک طرح کی عبادت ہے۔یہاں ایک امر قابل غور ہے کہ مجوزہ اسلامی ریاست کے قیام کیلئے اقبالؒ نے اپنی شاعری سے نوجوانوں کی تربیت بھی جاری رکھی۔آپ نے ہمیشہ جوانوں سے مخاطب ہوتے تھے ۔ انہیں پیروں کا استاددیکھنا چاہتے تھے۔آپ چاہتے تھے کہ خداوند تعالی آپ کا عشق اور آپ کی نظر انہیں عطا کر دے۔