حضرت علامہ اقبالؒ کا یوم پیدائش پورے ملک میں نہایت محبت اور عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ اہلِ وطن شاندار تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں۔ فکرِ اقبال کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں بھی خوبصورت پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے سکول میں یوم اقبال کے حوالے سے خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ اساتذہ کرام ہمیں علامہ صاحب کی بچوں کی نظمیں ترنم سے سکھایا کرتے تھے۔ ’’پرندے کی فریاد‘‘ ’’ماں کا خواب‘‘ نظم مجھے آج بھی یاد ہے۔ یوم اقبال کی تقریب میں جب میں نے یہ نظمیں پڑھیں تو پرنسپل صاحبہ میڈم بلقیس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بہت بارعب پروقار پرنسپل صاحبہ جن کے سامنے بات کرنا بھی مشکل ہوتا تھا۔ انہیںحضرتِ اقبال سے بہت پیار تھا۔ عظیم ہیں وہ سب لوگ کہ جنہوں نے اقبالؒ سے پیار کرنا سکھایا۔ میرے بچپن کا ساتھی ’’نوائے وقت‘‘ بھی ہے کہ جس نے اقبالؒ کی محبت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ بچپن بڑا خوبصورت ہوتا ہے۔ اسکی یادیں بھی بڑی حسین ہوتی ہیں۔ بچوں کو جو بات سکھائی جاتی ہے وہ ساری عمر ان کے ساتھ رہتی ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو فِکر اقبال سے روشناس کروائیں۔ آج جب حضرت علامہ اقبالؒ کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا ہے تو فخر محسوس ہوتا ہے کہ اقبالؒ ہمارے قومی شاعر ہیں۔ اپنے تو اپنے غیر بھی علامہ صاحب کے گرویدہ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ٹی وی پر یوم اقبال کے حوالے سے چائنیز لوگوں کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ جان کر نہایت خوشی ہوئی کہ وہ لوگ اقبال کو بیحد محبت سے پڑھتے ہیں۔ ایک خاتون کہہ رہی تھی کہ ہم پہلے اقبال کا ایک شعر یاد کرتے ہیں پھر اس پر عمل کرتے ہیں اس کے بعد اگلا شعر یاد کرتے ہیں۔ (سبحان اللہ) ایسی توفیق اگر ہمیں بھی مل جائے تو ہمارا ملک جنت نظیر ہو جائے۔ اقبالؒ کو پڑھنے، اقبالؒ کو جاننے کیلئے صدیاں درکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو بلند نگاہی اور سُخن وری انہیں عطا کی وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی۔ ایسے عظیم قومی شاعر کبھی نہیں مرتے اور جن قوموں میں یہ موجود ہوتے ہیں وہ بھی کبھی نہیں مٹتیں۔ علامہ صاحب سے محبت کے اظہار کیلئے ہر ایک کا انداز جُدا ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے شاعر ندیم اختر ندیمؔ ان سے اپنی عقیدت کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
؎دل جس کی محبت میں گرفتار بہت ہے
اُس شاعر مشرق سے مجھے پیار بہت ہے
آنکھیں تیرے اشعار کی تابش سے فروزاں
سینے میں مگر ہجر کا آزار بہت ہے
علامہ اقبالؒ کے کلام کے تراجم انگریزی، جرمن، فرانسیسی، روسی ، فارسی، عربی اور پنجابی زبانوں میںشائع ہو چکے ہیں۔ اُنکے فکری احساس کو وسعت دینے کیلئے حکومت کی زیرِ نگرانی اقبال اکیڈمی قائم کی گئی ہے۔ ان کا کلام دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں نصاب کا حصہ ہے۔ وہ صرف مسلمانوں ہی کے شاعر نہ تھے بلکہ وہ تو دنیا کے ہر غریب انسان کے دل کی آواز تھے۔ وہ کہتے تھے کہ غریب آدمی یہ ضرور سوچے کہ وہ غریب کیوں ہے۔ اسلام میں زکوٰۃ کا نظام موجود ہے۔ اگر پاکستان میں اس پر عمل کیا جائے تو کوئی غریب نہ رہے۔ اقبالؒ اپنے کلام کے ذریعے دنیا کے ہر غریب اور مظلوم و محکوم انسان کو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔
؎اُٹھو میری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
تبدیلی کا عمل کہیں پر بھی وجودمیں آ سکتا ہے۔ بات صرف احساس دلانے کی ہے۔ اقبالؒ کی شاعری میں جابجا مسلمانوں کو جسدِ واحد بن کر جینے کی ترغیب ملتی ہے۔ اُن کی ایک ہی خواہش تھی کہ مسلمان ایک ایسی خودمختار برادری بن جائیں کہ جس کا مرکز خانہ کعبہ ہو اور وہ اللہ اور رسولِ پاکؐ کی محبت میں سرشار ہو کر ایک دوسرے سے یوں وابستہ ہوں کہ اُن کو کوئی جُدا نہ کر سکے۔
؎حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
آپؒ کی وفات پر قائد اعظمؒ کے یہ عظیم کلمات تاریخ کے اوراق پر روشن حروف سے لکھے گئے ہیں کہ : ’’اقبالؒ میرے لیے ایک رہنما بھی تھے۔ دوست بھی اور فلسفی بھی۔ تاریک ترین لمحوں میں، جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا، وہ چٹان کی طرح کھڑے رہے اور ایک لمحہ کیلئے بھی متزلزل نہ ہوئے۔
آج ملکی سیاست کی جو صورتحال ہے اس میں ملکی قائدین اور لیڈران کو بہت ضرورت ہے حضرتِ اقبال کے افکار اور ارشادات کو سمجھنے اور اُن پر عملی طور پر عمل پیرا ہونے کی۔ ورنہ یہ سب شتر بے مہار کی مانند ہیں کہ جیسے ان میں کوئی اقبال تھا ہی نہیں…وہ قومیں ہی دنیا میں اپنا الگ مقام بنا پاتی ہیں جو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اقبالؒ کی تعلیمات پر تدبر و تفکر کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)