اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل)ملک بھر سے ایچ ای سی کے سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کے لیے بیرون ملک جا نے والے 8فیصد سکالرز کے واپس نہ آنے کا انکشاف ہوا ہے جس سے قومی خزانے کو ایک ارب سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ان لیکچرار کے خلاف پچیس فیصد جرمانہ سمیت انہیں واپس لانے کے لیے باقاعدہ کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق ملک بھرکی سرکاری جامعات سے سرکاری سکالرشپس پر پی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک جا نے والے لیکچرزکی بڑی تعداداپنی ڈگری مکمل کر نے کے بعدواپس ہی نہیں آئی ہے جبکہ کئی لیکچرزایسے ہیں جو اپنی تعلیم ہی مکمل نہ کرسکے اور فیل ہوگئے۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور متعلقہ یونیورسٹی نے ان لیکچرار کے خلاف پچیس فیصد جرمانہ سمیت دیگر کارروائی کا آغاز کردیا ہے، ذرائع کے مطابق بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے والے شخص پر ایک سے ڈیڑھ کروڑ کے اخراجات آتے ہیں۔ ملک میں اسکالر شپ دینے کے کئی طریقے ہیں، جب کوئی لیکچرار ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے توسط سے پی ایچ ڈی کرنے بیرون ملک جاتا ہے تو متعلقہ شخص سے مکمل معاہدے کے علاوہ اشورٹی بانڈ بھی دیا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کے قریبی عزیز کو گواہ بھی بنایا جاتا ہے۔اگر کوئی لیکچرار تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس نہیں آتا تو ایچ ای سی اسے شوکاز نوٹس بھیجتی ہے، اور اسے پاکستان واپس آنے کے بعد معاہدے کی رو کے تحت متعلقہ جامعہ میں پانچ سال کے لئے تدریسی عمل سر انجام دینے کا کہتی ہے، اگر وہ نہیں آتے تو جتنا خرچہ پی ایچ ڈی کی تعلیم پر ہوا متعلقہ شخص کو پچیس فیصد جرمانے کے ساتھ اسے ادا کرنا ہوتا ہے۔لیکن ایچ ای سی کی طرف سے اس حوالے سے اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں۔ سابق چئیرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں سے پی ایچ ڈی کے لئے جانے والے لیکچرار حضرات میں سے سات سے آٹھ فیصد لوگ تعلیم مکمل کرنے کے بعد روپوش ہوجاتے ہیں اور نجی یونیورسٹیوں میں تعلیم دینے لگ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مختار احمد کا مزید کہناتھا کہ جب میں ایچ ای سی میں تھا تو ایک شخص جرمنی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد روپوش ہوگئے، میں نے متعلقہ حکام سے باز پرس کی تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ہماری دسترس میں نہیں، میں نے اس شخص کا نام گوگل میں سرچ کیا تو پتہ چلا کہ موصوف امریکا کی ایک یونیورسٹی میں بطور لیکچرار اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔اس شخص کو واپس پاکستان لانے کے لئے میں نے امریکا کی متعلقہ یونیورسٹی اور مقامی ایجنسی کو خط لکھا اور بتایا کہ یہ پاکستانی شخص مفرور ہے اسے پاکستان کے حوالے کیا جائے، جس پر انہوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے چند ہی دنوں میں اسے ڈی پورٹ کرتے ہوئے پاکستان بھیجا۔