پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے نہ چاہا اور نہ کبھی یہ کوشش کی کہ پاکستان کو انقلابی بنیادوں اور کم سے کم وقت میں اقتصادی طور پر مضبوط بنایا جائے حالانکہ خطے کے تمام ممالک نے گذشتہ 30سالوں سے نہ قابل یقین ترقی کی ہے اور معاشی طور پر اپنے اپ کو مضبوط کیا ہے آج بنگلا دیش اور افغانستان کی کرنسی پاکستان سے زیادہ مضبوط ہے لیکن اب قدرے بہتری آئی ہے لیکن اس کی وجہ ہماری اپنی کوشش نہیں ہے بلکہ دنیا نے ہمیں اپنے مالیاتی معاملات درست کرنے کیلئے مجبور کیا ہے اورحوالہ وہنڈی کو ہم محدود کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد امریکن ڈالر کے سامنے مسلسل گرتا روپیہ ذرا سنبھل گیاہے او ر 170روپیے فی ڈالر کو تقریباََچھو کراب روپیہ بہتر ہو کر 159کے قریب آگیا ہے جبکہ کرنسی مارکیٹ سے افواہ ہے کہ روپیہ 155آکر قدرے ٹھہرے گا لیکن یہ سب اندازے ہیں کیونکہ پاکستان خطے کی کمزور معیشت کا حامل ملک ہے پٹرول کے انٹرنیشنل ریٹ میں تیزی یا IMFکی ایک قسط کی ادائیگی ڈالر کو پھر اوپر لے جا سکتی ہے ڈالر میں 8روپے کی کمی گذشتہ40یوم میں ہوئی ہے لیکن مہنگائی میں کوئی کمی نہیں آئی جبکہ مہنگائی کی وجوہات میں روپیہ کی کمزوری ہمیشہ نمبر ون رہی ہے دنیا میں کسی بھی ملک کی کرنسی ویلیو سب سے اہم ہوتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی پہچان ان کی کرنسی کی طاقت کا ہونا ہوتاہے غریب ممالک سے لوگ محنت مزدوری کرنے امیر ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں انہیں کوئی بڑے کروڑوں روپے نہیں ملتے ہزاروں او ر سینکڑوںمیں وہ کما پاتے ہیں لیکن کرنسی کے تبادلے میں پاکستان جسے ممالک میں وہ بہت معقول آمدنی والے ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے پاکستان کا روپیہ کمزور ہوتاہے بیرون ملک جاکر روزی کمانے والوں کی تعداد میںاضافہ ہو تاہے اور ترسیلات زر بھی بڑھ جاتی ہیں پاکستانی کرنسی خطہ میں کمزور ہونا ایک المیہ ہے اور نوبت یہ ہو گئی ہے کہ لو گ افغانستان میں مزدوری ڈھونڈنے لگے ہیں کیونکہ افغانستان میں کمائے ہوئے ایک ہزار روپیے پاکستان میں دو ہزار روپیے ہو جاتے ہیں یہ اچھا ہے کہ روپیہ ڈالر کے سامنے کچھ بہتر ہوا ہے لیکن اس میں فیکٹر ایک ا ور بھی ہے پاکستان کی اہم تجارت چین کے ساتھ ہے اوراب بہت سے پاکستانی تاجرچین کے ساتھ تجارت چینی کرنسی میں کر رہے ہیں جبکہ یورپ سے بہت سے تجارتی معاہدے یورو کرنسی میں ہو رہے ہیں یورپ کے اہم ممالک تھرڈ ورلڈ کے ممالک سے یورو میں کاروبار کو ترجیح دے رہے ہیں کیا دنیا میں امریکن ڈالر اپنی اہمیت کھو دے گا یہ اہم سوال ہے لیکن اس کا جواب مشکل ہے کیونکہ اس وقت دنیا کی سپر معاشی طاقت چین کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر جو تین ہزار ارب ڈالرز سے زائد ہیں وہ ڈالرز میں ہیں جس کی وجہ سے چین مصنوعی طور پر اپنی کرنسی ڈالر کے سامنے کمزور رکھتا ہے ایک طرف چین ہے جو ڈالر کو اپنے ملک میں مصنوعی طور پر طاقتور رکھتاہے ایک ہم پاکستان ہیں جو مصنوعی طور پر ڈالر کے سامنے اپنی کرنسی کو طاقتور رکھتے ہیں لیکن کرنسی کے اس پورے کھیل میں جیت اسی کی ہوتی ہے جس کی ایکسپورٹ بہتر ہے اب جو بنگلا دیش کا ٹکا بھی ہمارے روپیہ کے سامنے طاقتور ہے اس کی وجہ بنگلا دیش کی سالانہ ایکسپورٹ ہمارے سے دوگنی ہونا وجہ ہے اور اسی کی جانب ہماری توجہ نہیں ہے پاکستان میں ایکسپورٹ میں اضافہ کے لئے کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے کیونکہ ملک کی سیاسی اشرافیہ کے مقاصد میں یہ شامل نہیں ہے امریکہ میں صدراتی الیکشن کے بعد جو سیاسی عدم استحکام نمایاں ہوا ہے وہ دنیا کی معیشت کو متاثر کر سکتاہے اس پر دنیا بھر کی تجارتی مارکیٹس میں تشویش پائی جا رہی ہے۔
اب ایک نظر پاکستان کی کاٹن مارکیٹ پر جہاں عدم استحکام نظر آ رہاہے قیمتوں میں 500کی مندی آئی ہے 10300والی مارکیٹ 9700سے9800میں آگئی ہے اس میں مزید مندا ممکن ہے کیونکہ کرونا/امریکی صدارتی الیکشن نے دنیا بھر کی کمو ڈٹیز مارکیٹس کو متاثر کیاہے نیو یارک کا سٹہ کمزور ہوا ہے جبکہ امریکہ کی گذشتہ ہفتہ سیل رپورٹ 60فیصد کم آئی ہے جبکہ پاکستان گذشتہ ہفتہ بھی امریکن کاٹن مارکیٹ میں دوسرا بڑا خریدار رہاہے جبکہ مجموعی طور پر 2019سے اب تک پاکستان امریکی کاٹن کے پہلے تین خریداروں میں مسلسل شامل ہے یعنی دو سالوں میں جب سے پاکستان میں کاٹن کی پیداوار متاثر ہوئی ہے ہم امریکہ سے کاٹن خرید رہے ہیں دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو اتنی کولیشن سپورٹ کے ڈالرز نہیں دئیے ہوں گے جتنے ارب ڈالرز کی ہم نے امریکہ سے کاٹن خرید لی ہے پاکستان میں کاٹن کی مارکیٹ میں عدم استحکام کی ایک وجہ سٹہ بھی ہے لاسٹ ویک ایک اندازے کے مطابق 80لاکھ من پھٹی ان فکس فروخت ہو چکی تھی اور اتنے بڑے سٹے کا انجام یہی ہوناتھا کیونکہ مارکیٹ میں ہر کسی نے اپنے اپ کو بچانے کیلئے کام کیا افواہ سازی ہوئی اور مارکیٹ مندے میں چلی گئی اب جن کاشتکاروں نے پھٹی کی چنائی کرائی اور افواہ مارکیٹ میں فروخت کردی وہ فائدے میں رہے اور جن کاشتکاروں نے سٹہ بازوںکے پیچھے لگ کر پھٹی اپنے گھروں میں سٹاک کی وہ نقصان میں چلے گئے ہیں ابھی فروخت کرتے ہیں تو نرخ کم ملتاہے اور مزید سٹاک میں رہتے ہیں تو مستقبل غیر واضح ہے یہ بھی سٹہ بازوں کا فن ہے جب معیاری پھٹی کا دام 5600من تھا تو پھٹی مارکیٹ میں کم آ رہی تھی آج نرخ مشکل سے 5100رہ گیاہے تو پھٹی بڑی مقدار میں آ رہی ہے جبکہ اس ساری صورتحال کی ذمہ دار حکومت ہے جس نے پاکستان کی اس اہم ترین فصل کی سپورٹ پرائز کا اعلان نہیں کیا جب کاشتکاروں کے سامنے کوئی امدادی قیمت ہی نہیں ہو گی تو وہ کیا کریں گا وہ پھر سٹہ بازوں کے ہتھے ہی چڑھے گا اور ایسا ہی ہوا ہے اور اگر کاٹن کی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی تو تو مستقبل میں کاٹن کی پیداوار تو کم ہو گی ساتھ ہی کپاس کے داموں کو جواری کنٹرول کریں گے ہماری حکومت کو اب اس پر توجہ دینا ہو گی ۔
اب گندم کو دیکھتے ہیں جس کی امدادی قیمت 1650روپے من حکومت نے مقرر کر دی ہے لگ بھگ دو ماہ تاخیر سے مقرر ہونے والی امدادی قیمت سے کاشتکاروں کی اکثریت نامتفق ہے اور گذشتہ ہفتہ لاہور میں کسانوں نے جو مظاہرہ کیا جس میں پولیس سے جھڑپ میں ایک کاشتکار رہنما ہلاک بھی ہو گیا اس کا مقصد بھی بنیادی طور پر گندم کی امدادی قیمت کودو ہزار روپے پلس کرانا تھا زرعی مداخل مہنگے ہونے کے بعد گندم کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے کاشتکار گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ چاہتے ہیں حکومت اگر گندم کی قیمت 1650روپے مقرر کر رہی ہے تو زرعی مداخل کی قیمتوں کو بھی کنٹرول کرے تاکہ کاشتکار گندم اُگا کر نقصان نہ کریں ۔ ختم شد۔