وسط اگست 2018ء میں موجودہ حکومت کا قیام عمل میں آیا اورآج تک عرصہ دو سال میں سات سیکرٹری سکولز پنجاب تبدیل کئے جاچکے ہیں اس تبدیلی کے نتیجہ میں نظام تعلیم تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے ثانوی واعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈزپنجاب میں گریڈ بیس کے ڈی پی آئی یا ڈویژنل ڈائریکٹر سطح کے مرد اساتذہ کو چیئر مین تعلیمی بورڈ تعینات کیا جاتا تھا تاکہ بورڈ ایمپلائز ایسو سی ایشن اور امتحانی بوٹی مافیا کا مقابلہ کرسکیں موجود ہ حکومت نے پانچ تعلیمی بورڈ ز میں گریڈ انیس کی ناتجر بہ کار خواتین اساتذہ کو چیئرمین تعینا ت کرکے نہ جانے کون سی بہتری کی جانب قدم اٹھا یا ہے سالانہ 2020ء میں نہم جماعت کے تین پیپرز لے گئے تھے ملتان اور ڈیرہ غازی خان تعلیمی بورڈزکے معروضی سوالیہ پرچہ جات قبل از وقت آئوٹ ہوئے راقم نے چیئر مین تعلیمی بورڈ ملتان اور سینئر صحافیوں کو بطور ثبوت آئو ٹ ہونے والے سوالیہ پر چہ جات قبل از وقت بھجوائے اگر امتحانات ہوتے تو بوٹی مافیا نے مزید سوالیہ پرچے آئو ٹ کرنے تھے لیکن آئندہ 2021ء کے منعقد ہ سالانہ امتحانات میں یہ تماشہ دیکھنے کو ملے گا انتیس لیبارٹری ہائر سیکنڈری سکولز جوکہ قائد اکیڈمیوں کے ساتھ اٹیچ ہیں اُن میں ایس ایس اور سینئر ایس ایس کے دو سو اکسٹھ آسامیوں پر خلاف قاعدہ بجائے ایس ایس اور سینئر ایس ایس کے پبلک سرو س کمیشن سے سلیکٹ ہونے والے کچھ ہیڈ ماسٹر ز ، ہیڈ مسٹریسز او رپرنسپلزکو تعینات کر کے ہائی او رہائر سیکنڈری سکولوں کو نہتا کر دیا یہاں ایک بات کا خصوصاً ذکر کرتا ہو ں کہ ان تبادلہ جات کیلئے چمک کے ساتھ پہلے آئیے اور پہلے پائیے کے فارمولا لے کا اطلاق ہواجب کہ تبادلہ جات بغیر سس (SIS) پورٹل نہیں کئے جارہے تھے صوبا ئی وزیر تعلیم پنجاب ڈاکٹر مراد راس نے اساتذہ کی ریشنلائزیشن کی ناکام پالیسی کی اغلاط نے اساتذہ کو ذہنی مریض بنا دیا ہے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ز ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی ، ڈی ای او زاور ڈپٹی ڈی ای او زجن کے تین سال مکمل ہوئے تبادلے کرنا شروع کردیئے لیکن سیاسی مداخلت کے نتیجہ میں لاوارث تعلیمی آفیسر زتبدیل کردیئے گئے اور کچھ تبدیل کئے ہوئے آفیسر واپس اپنی سیٹوں پر تبادلہ کر وا کر آگئے بعض ایسے تعلیمی آفیسر ز سیاسی پشت پناہی کے بل بوتے پر لگائے گئے ہیں کہ وہ سکول سربراہان کے طور پر کامیاب نہ تھے اُن کی کارکردگی صفر تھی ایسے افرادبھی تعینات کئے گئے جن کے کرپشن اور نااہلی کی بنیاد پرپیڈاایکٹ 2006ء کے اطلاق کی سفارشات کی ہوئی تھیں کو وڈ ۔19کی وجہ سے سکول کالج اور یونیورسٹیاں بند کرنا پڑیں مگر سکول ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی ہدایات صبح کچھ اور شام کوکچھ تھیں جس کے نتیجہ میں موجودہ طالب علموں کے مستقبل سے کھیلاگیاہے ۔ سکول سربراہان اور اساتذہ کووڈ ۔19ڈینگی کے ایس او پیز کے چکر میں ڈالا ہوا ہے اور اساتذہ ابھی اس چکر سے نکل نہیں پائے ۔ اساتذہ کا پرسنل ڈیٹا کمپوٹرائزڈ کرنے کیلئے دو سال سے کوششیں جارہی ہیں اساتذہ کوچھٹی کے روز اور راتوں کو بیٹھ کر یہ ٹاسک مکمل کرنے کی مقررہ تاریخ طے پائی ہیں اور ابھی سلسلہ جارہی ہے ۔ این ایس بی کی رقم میںکمی کرکے سکول سربراہان کومشکلات سے دو چار کررکھا ہے ۔ این ایس بی سے ارلی چائلڈ رومز کیلئے خواتین اور علاوہ ازیں سکولوں میں کوچ رکھے گئے ہیں این ایس بی سے سینیٹائزرز کی خریداری کا اضافی بوجھ پڑ گیا ہے ۔ڈویژنل ڈائریکٹو ریٹس سکولز کی بحالی کر کے ڈائریکٹرزسکولز سیکنڈری و ایلیمنٹری اورایڈیشنل ڈائریکٹر زتعینات کر دیئے ہیں اب دومتوازی تعلیمی نظام چل رہے ہیںڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز تو فعال ہے مگر دو سال سے ڈویژنل ڈائریکٹو ریٹس غیر فعال ہیں نہ تو سرکاری گاڑیاں ہیں اور نہ ہی دفاتر جن دفاتر میں بٹھا یا گیا ہے وہ تو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیزکو دے دیئے گئے تھے ابھی تیسرا نظام بلدیاتی ایجوکیشن سسٹم فعال ہونا ہے اگریہ ہوگیا تو نظام تعلیم کی بساط لپیٹدی جائیمگر شعبہ تعلیم کی تباہی کادور ہے جو تیزی سے اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے موجودہ حکومت کی توجہ اہم بات کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ تمام سرکاری سکولوں کو آج سے بارہ سال قبل انگلش میڈیم قرار دیا گیا تھا لیکن تمام سرکاری سکولوں کے طلباء و طالبات امتحان اُردو میڈیم میں دیتے ہیں اور حکومت انگلش میڈیم کتابیں چھپوا کر ٹرالز پر ہرضلع کو بجھواتی ہے اور یہ سب کتابیں ردی کی نذر ہو رہی ہیں کمیشن مافیا ہر سال کروڑوں روپے کمیشن ہڑپ کر رہا ہے دوسری طرف مانیٹرنگ سسٹم کی ناقص مانیٹرنگ کا یہ حال ہے کہ بعض ہائی سکولوں اور ہائیر سیکنڈر ی سکولوں میں طلبا ء کی تعداد انتہائی قلیل ہے اور یہ سالہاسال سے بوگس انرولمنٹ بھیج رہے ہیں۔
نظام تعلیم کے انحطاط کا سیاہ ترین دور
Nov 09, 2020