9نومبر 1877ء کی صبح ایک ایسی روح کی خوشخبری لے کر آئی جو دنیا کے نقشے پر جناب محمد مصطفیﷺ کے ایجنڈے پر بننے والی اسلامی مملکت کی نوید سنائے گی اور شیخ نورمحمد کے گھر کو قیامت تک نامور کر دے گی۔ دنیا میں ہر روح کسی مقصد کیلئے ظہور پذیر ہوئی ہے۔ جناب علامہ محمد اقبالؒ کی روح دنیا میں یہ بتانے آئی کہ:
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آج قلندرِ لاہوری ، درویشِ لاہوری، فنا فی الرسول ، ضیغم اسلام، مفکر اسلام، مفکر پاکستان کا یوم ولادت ہے۔پاکستان کے اندر 9نومبر کو چھٹی ہوتی تھی کیونکہ پاکستان کا خواب ہی اقبال نے دکھایا تھا مگر کچھ لبرلز نے مل کر یہ چھٹی ختم کر دی اور شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جناب اقبال ؒ کی پوری شاعری کے اندر ایک شعر بھی ایسا نہیں ملا جس کو پڑھ کر کوئی یہ کہہ سکے کہ اقبال سیکولر تھا۔ اقبال نہ سیکولر تھا نہ لبرل ازم کا قائل تھا نہ لبرل آدمی تھا۔ لیکن انشااللہ وہ وقت قریب ہے جب عاشق رسول ﷺ جناب اقبال ؒ کے یوم ولادت پر چھٹی ہوگی ۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم اپنے اصل سے چشم پوشی تو نہیں کر رہے۔ "دو قومی نظریہ " جیسے دھندلاتا جا رہا ہے۔ اسی لیے ہولی اور دیوالیوں پر ڈانس کیے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جناب اقبال ؒ نے کہا تھا کہ :
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
جناب اقبال ؒ بھی اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان گئے مگر ان کی آنکھ کو وہاں کی چمک ذرا بھی نہیں بھائی اور جب کسی نے پوچھا تو آپ نے جواب دیا "سرمہ تھا میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف"۔ عاشق رسول ﷺجناب اقبال ؒ مدینہ نہیں گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ جب میں مر جائوں تو میرا جسم مٹی میں مل جائے پھر ہندوستان سے ہوا اُٹھے جو میری مٹی کو اڑا کر مدینہ کی راہ میں رکھ دے پھر وہاں سے حاجی گزریں ان کے پیروں کو میری مٹی لگے پھر میں مدینہ پہنچ سکتا ہوں:
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستان سے اے اقبال
اُڑا کے مجھ کو غبارِ راہِ حجاز کرے
جناب غازی علم الدین شہید کو پھانسی دی گئی تو غازی صاحب کی وصیت کے مطابق میانی صاحب قبرستان لاہور میں لانے سے انگریز گھبرا رہے تھے کہ بہت بڑی خانہ جنگی کا ڈر ہے۔ جناب علامہ اقبال ؒ اپنی ضمانت پر غازی صاحب ؒ کو وصیت کے مطابق لاہور لائے اور خود غازی علم الدین شہید کے قبر کے اندر اترے آپ نے کفن کے بند کھولتے ہوئے غازی صاحب کو پیغام دیا کہ میں نے آپکی وصیت پوری کی اب آپ میری وصیت بھی پوری کریں جب آقا کریم ﷺ نبی رحمت تشریف لائیں تو میرا سلام عرض کرنا اور یکدم چھلانگ لگا کر باہر آئے اور جناب پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے "شاہ جی اسی گلاں ای کردے رہ گئے تے لوہاراں دا منڈا بازی لے گیا اے"جناب اقبال ؒ نے بتایا کہ جب میں کفن کے بند کھولتے ہوئے غازی کو پیغام دے رہا تھا تو یکدم غازی صاحب کا نورانی چہرہ سامنے آیا اور غازی کہنے لگا"جلدی باہر نکلیں تو سہی سرکار کو تشریف لانے دیں" ۔جناب اقبال ؒ ہمیشہ کہتے تھے : فقیر از خود خواہم ہر چہ خواہم ۔ کہ حضور آپکے در کا فقیر ہوں جو مانگو ں گا آپ سے مانگوں گا ۔ اس صدی میں میں نے مولانا خادم حسین رضوی صاحب سے زیادہ علامہ اقبال کا حافظ نہیں دیکھا۔ میں نے ان سے سنا کہ میرے ایک شاگرد کو اقبال کی خواب میں ملاقات ہوئی کہنے لگے جب مولوی خادم حسین مجھے پڑھتا ہے تو مجھے اچھا لگتا ہے۔میرے آقا کریم ﷺ کے دیوانوں کی زندگیاں بھی لاجواب ہیں۔ موت بھی لاجواب ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ :
زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا
محمد ﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا
اور جناب اقبال ؒ کیلئے کہ:
کہاں سے تونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
میں نے حکمرانوں کو اقبال کو پڑھتے ضرور دیکھا ہے مگر عمل ہر گز نہیں دیکھا بلکہ بالکل الٹ چلتے دیکھا ہے۔ آخر کوئی ان حکمرانوں میں سے ہی تھا نہ جس نے اقبال ؒ کی چھٹی ختم کروا دی اور خود بھی ختم ہو گیا۔ حکمران ہم سے ہمیشہ عہد لیتے رہے کہ :
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
جناب اقبال ؒ میرے آقا کریمﷺ کے عاشق خاص تھے آپکی زندگی کے بہت سے واقعات ہیں میرا وجدان کہتا ہے کہ آقا کریم ﷺ نے جناب اقبال کی روح کو عالم ارواح میں ہی چن لیا تھا اسی لیے اس سلطنت کا پیغام جہاں سے آپﷺ کو ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔ اسکی تعمیر و تکمیل کا پیغام بھی آپ ہی لے کر آئے۔ عاشقان رسول ﷺ کی زندگیاں بھی کمال ہیں ۔
عقلمندی اسی میں ہے کہہم اپنی اصلیت اور اوقات کوپہچانیں اور دیکھیں جناب اقبالؒ کیا کہہ رہے ہیں :
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے کہ وہ شیر پھر ہشیار ہوگا
نکل کے صحراسے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
Nov 09, 2021