ایک مثل مشہور ہے کہ شاعر بنتا نہیں بلکہ شاعر پیدا ہوتا ہے امت مسلمہ پر اﷲ رب العزت کا احسان عظیم ہے جو اس نے علامہ اقبال جیسے شاعر سے نوازا۔ اسلام کا مقصود نوع انسان کی وحدت ہے اقبال کے نزدیک اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے اس کا تعلق سیاست و تمدن سے ہی فرد سے یا جماعت سے ہو سب کا حل دین اسلام میں پنہاں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نسل پرستی‘ وطن پرستی نسب پرستی اور اسی طرح سے دوسرے تمام امتیازات کو مٹا کر صرف ’اﷲ پرستی‘ کو باقی رکھا اور اسی مستحکم بنیاد پر ملت اسلامیہ کو استوار کیا حضرت سلیمان فارسیؓ سے کسی نے ان کا نسب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا سلیمان بن اسلام‘ یہ جواب اسلامی روح کے عین مطابق ہے اسی لئے اقبال فرماتے ہیں۔
بنان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ نورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
حقیقت یہ ہے کہ جب ایک مسلمان ملت اسلامیہ کی وسیع برادری میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کا وطن اسلام ہوتا ہے اور وہ نسلی و جغرافیائی قیود سے آزاد ہو جاتا ہے پھر ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
آج تو نومبر ہے مذکورہ بالا حقیقت کے پیش نظر ہمیں آج اپنے آپ سے ایک عہد کرنا ہے اور سوچنا ہے کہ
کیا فکر اقبال اکیسویں صدی کے تقاضے پورے کرتی ہے؟
کیا خود شناسی ہمیں ہمارا کھویا ہوا مقام واپسی دلا سکتی ہے؟
کیا اقبال کے نظریات قصہ پارینہ بن چکے‘ یا امت مسلمہ کی بقا اور ارتقاء کے ضامن ہیں؟
کیا اقبال آج سے زیادہ کل شاعر ہیں؟
کیا اقبال کا کہنا درست ہے کہ اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت ہے؟
کیا صرف اقبال شناسی یا اقبال فہمی ضروری ہے؟
کیا اقبال فراموشی واقعی ایک المیہ ہے ؟
میرے نزدیک… جی ہاں! میرے نزدیک اقبال فراموشی ایک المیہ ہے صاحب علم و دانش ہوں یا ارباب اختیار۔ عام خاص ہوں یا جو ئیدگان علم سب کے ہاں فکر اقبال ایکسویں صدی میں ایک معمہ بنی ہوئی ہے حیرت تو یہ ہے کہ بعض ’’ذی شعور‘‘ تو بیان تک بھی کئے ہیں کہ اقبال کی تجلاتی باتیں فی زمانہ ممکن نہیں اور عصر حاضر متقاضی ہے کہ ٹیکنالوجی اور اقتصادیات زمانے پر چھا جائے۔ اس حقیقت سے بھی انحراف نہیں کہ عصر حاضر ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی کا زمانہ ہے مگر کیا اس ترقی کی خاطر احترا م آدمیت‘ انسانیت کو کچل دینا ترقی ہے؟
کیا فرقوں میں بٹ جانا ترقی ہے؟ کیا امت محمدیہ ملت ابراہیم سے منہ موڑلے یہ ترقی ہے؟
اقبال کی سوچ کا مرکز اور محور امت مسلمہ ہے وہ امت کی حالت پر سراپا درد ہیں ان کی خواہش ہے کہ امت محمدی گدائی‘ خوف اور غلامانہ ذہنیت کے چنگل سے آزاد ہو‘ منفی خیالات سے گریز کرے۔ مثبت انداز فکر اپنائے۔ مگر آج کا مسلمان آئین شریعت سے آزاد ہو گیا ہے جس کی زندگی میں جفا کشی‘ نظم و ضبط‘ روا داری اور احساس انسانیت مفقود ہو چکی ہے اسی کے سبب قوم کا شیراز ہ بکھر گیا اور یہ قانون فطرت ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم آئین اور ضابطے کی پابندی نہیں کرتی وہ بکھر جاتی ہے فرماتے ہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اس قوم رسول ہاشمی کی امامت بھی بے مثل ہونی چاہئے اور امامت کا فریضہ ہر شخص کی خودی پر منحصر ہے انسانی خودی تبھی حقیقی ہونی ہے جب اس میں اپنی حقیقت کا شعور پیدا ہو۔ بس لازم ہے کہ فکر اقبال جو قرآن کا ماخذ ہے منبع ہے سرچشمہ ہے اس سے اپنے لئے راہیں متعین کریں۔
مصنوعی قیادت سے نجات پائیں‘ اجتماعیت کے ساتھ خاصہ خاصان رسل حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوں قرآن و سنت سے متمسک ہوں غیرت مند اور باشعور قوموں کی طرح زندہ رہنے کا سبق سیکھیں تو آج بھی ہماری تقدیر بدلنے میں دیر نہ لگے۔ علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر میسر آئے گی اور اس تعبیر کو ایک روشن مستحکم مستقبل پاکستان کی شکل میں میسر آئے گا۔