پاکستان بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ہر طرف سے مسائل نے جکڑا ہوا ہے۔ ہمارے دشمن اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی ہیں۔ ہمیں دشمنوں کی کمی نہیں لیکن بدقسمتی ہے کہ ہمارے اندر کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دشمنوں سے بھی بڑھ کر نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسا شخص جو قوم کو تقسیم کرے وہ کسی بھی طاقتور دشمن سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بیرونی دشمن کے حملے کو ناکام بنانے کے لیے تو تیاریاں ہر وقت ہوتی رہتی ہیں کیونکہ بیرونی حملے کی نوعیت کا اندازہ ہوتا رہتا ہے لیکن وہ دشمن جو ہمارے اندر موجود ہے اس کے حملوں کو ناکام بنانا بیرونی دشمنوں سے کہیں مشکل ہے کیونکہ اس کی شناخت نسبتاً مشکل ہوتی ہے۔ بہر حال افواجِ پاکستان نے ہر سطح پر ملک دشمنوں کا قلع قمع کیا ہے۔ بیرونی دشمنوں کا مختلف محاذوں پر مقابلہ کرتے ہوئے ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا ہے تو اندرونی طور پر ہمارے امن کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا قلع قمع بھی کیا جا رہا ہے۔ آج ہم پرامن اور پر سکون زندگی گذار رہے ہیں تو اس کے پیچھے افواجِ پاکستان کی قربانیاں ہیں۔ ہمارے فوجی جوانوں نے امن کی بحالی کو اپنے قیمتی خون سے ممکن بنایا ہے۔ بہرحال یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ دشمن نے ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ وہ ہر دور میں ایک نئی حکمت عملی اور نئے انداز کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے اور افواجِ پاکستان نے ہر دور میں دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے اور ہمیشہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ہماری حفاظت کو یقینی بناتے رہیں گے۔
ملک کے اندرونی مسائل اور بیرونی مشکلات کو دیکھتے ہوئے گذشتہ روز سیاسی و عسکری قیادت نے تفصیل سے اہم معاملات پر بات چیت کی ہے۔ ان حالات میں یہ بیٹھک نہایت خوش آئند ہے۔ اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیے بالخصوص وہ سیاسی جماعت جسے دفاعی اداروں پر کسی بھی حوالے سے اعتراض ہو انہیں یہاں ضرور ہونا چاہیے تاکہ اگر کہیں ابہام ہے، کہیں عدم اعتماد ہے یا معلومات کی کمی ہے تو اسے دور کیا جا سکے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کیونکہ دشمن کا ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ ہدف افواجِ پاکستان ہی ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ دشمن حملہ کرتا ہے اگر وہاں ناکامی ملتی ہے تو پھر ناکام دشمن اندرونی طور پر دفاعی اداروں کو متنازع بنانے کی حکمت عملی پر کام کرتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دشمن پلان بی پر بھی کام کر رہا ہے۔
اس تناظر میں گذشتہ روز پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والا اجلاس نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس میں ملک کے نمایاں سیاست دانوں کی شرکت سے یقینی طور پر تلخیاں کم ہونے اور ورکنگ ریلیشن شپ بہتر ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی محمد قاسم خان وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی، چوہدری فواد حسین، چوہدری طارق بشیر چیمہ نے شرکت کی۔ ، شیخ رشید احمد، سوری، پرویز خٹک، اسد عمر، شفقت محمود، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، سید شبلی فراز، ڈاکٹر فروغ نسیم، اعجاز احمد شاہ، مونس الٰہی، نور۔ اس موقع پر حق قادری، عمر ایوب خان، سید فخر امام، سید امین الحق، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف، وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، چیئرمین سینیٹ اور دیگر بھی موجود تھے۔ کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک محمد عامر ڈوگر، سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم، اراکین قومی اسمبلی بلاول بھٹو زرداری، اسد محمود، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، غوث بخش خان مہر، امیر حیدر اعظم خان، نوابزادہ شاہ زین بگٹی، اراکین سینیٹ شیری رحمان، اعظم نذیر تارڑ اور دیگر نے بھی شرکت کی۔ انوار الحق کاکڑ، مولانا عبدالغفور حیدری، سید فیصل علی سبزواری، محمد طاہر بزنجو، ہدایت اللہ خان، محمد شفیق ترین، کامل علی آغا، مشتاق احمد، سید مظفر حسین شاہ، محمد قاسم اور دلاور خان شریک ہیں۔ اراکین قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف، رانا تنویر حسین، احسن اقبال، راجہ پرویز اشرف،حنا ربانی کھر، سید نوید قمر، محسن داوڑ، خواجہ سعد رفیق، طارق صادق، سید فیاض الحسن، عالیہ حمزہ ملک، سینیٹر میاں رضا ربانی اور قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹی کے ارکان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سوالات کے جوابات دیے جبکہ ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے علاقائی اور سیاسی چیلنجز بالخصوص بھارت کی غیر قانونی صورت حال کے بارے بریفنگ دی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور افغانستان کے معاملے پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے بھی اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار اور دیگر اعلیٰ فوجی افسران نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاء کو افغانستان کی تازہ ترین صورتحال، اب تک ہونے والی پیش رفت اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے حکومتی موقف سے آگاہ کیا گیا۔اجلاس کا بنیادی مقصد اپوزیشن رہنماؤں کو اعتماد میں لینا تھا۔ اجلاس خوشگوار ماحول میں ہوا جہاں فریقین نے تحمل کے ساتھ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سنا۔ حکومتی کا موقف تو یہ بھی ہے کہ بریفنگ شاندار ماحول میں منعقد ہوئی۔حکومت نے یہ خواہش بھی ظاہر کی ہے کہ ایسا ماحول برقرار رہنا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اچھے ماحول کو تباہ حکومت خود کرتی ہے۔ ان کے وزراء بولے بغیر رہ نہیں سکتے اور جب بولتے ہیں اس وقت ایسا بولتے ہیں کہ سوائے نفرت کے کچھ نہیں پھیلتا۔
تحریکِ طالبان پاکستان اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔اجلاس جس میں قومی پارلیمانی اور سیاسی قیادت، اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ، صوبائی قیادت، وزیراعظم آزاد کشمیر نے شرکت کی، بریفنگ کے اختتام پر سوال و جواب بھی ہوئے۔ بعد ازاں کمیٹی کے ارکان نے اپنی سفارشات پیش کیں۔شرکاء نے کہا کہ وہ پاکستان کی ایلیٹ انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے متعدد خطرات کا مقابلہ کرنے اور اسے بے اثر کرنے کے لیے کیے گئے موثر اقدامات سے متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر اپنے مشرقی پڑوسی سے، جو افغان این ڈی ایس کو استعمال کر کے افغانستان کی سرزمین کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ اس حوالے سے موثر جوابی اقدامات کی وجہ سے آج پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔
شرکائ نے کہا کہ افواجِ پاکستان کے جوابی اقدامات کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے اب صرف محدود انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (IBOs) کیے جا رہے ہیں۔ دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تخریبی سرگرمیاں انجام دینا مشکل ہو رہا تھا۔ایک رکن پارلیمنٹ نے آئی ایس آئی کی طرف سے بھارتی مسلح افواج کے حاضر سروس سینئر افسر کلبھوشن جادیو کے ذریعے چلائے جانے والے دہشت گرد نیٹ ورک کا قلع قمع کرنے کے لیے کامیاب آپریشن کا ذکر کیا اور کہا کہ کئی تہوں کے پیچھے چھپے ہوئے اس طرح کے پیچیدہ نیٹ ورک کا پتہ لگانا بے مثال ہے۔ٹریڑری بنچ کے سینیٹر نے وزیر اعظم عمران خان کے متعدد بیانات کا حوالہ بھی دیا جہاں انہوں نے ملک کو بیرونی اور اندرونی خطرات سے بچانے میں آئی ایس آئی کے کردار کی خاص طور پر تعریف کی اور کہا کہ وزیر اعظم نے اپنے تمام دوروں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کے دوران ڈی جی آئی ایس آئی نے پاکستان کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے میں ان کے کلیدی کردار کو سراہا ہے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک اور سینیٹر نے کہا کہ اس طرح کی ملاقاتیں قومی اہمیت کے اہم مسائل پر تمام فریقین کو سننے کے لیے اچھی ہیں۔ شرکاء نے ڈوزیئرز کے اجراء کا ذکر بھی کیا جس میں آئی ایس آئی کی جانب سے پاکستان کے اندر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی جانب سے کی جانے والی دہشت گرد کارروائیوں کے خلاف جمع کیے گئے ناقابل تردید شواہد تھے۔ شرکاء کو یہ بتایا گیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کی ان کارروائیوں کا مقصد ملک میں تقسیم اور افراتفری پھیلانا تھا۔ کے پی کے کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ اشرف غنی کے سابقہ دور حکومت میں افغانستان سے خطرات کو بے اثر کرنے میں انٹر سروسز انٹیلی جنس کے کردار کو تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ افغان سرزمین پاکستانی عوام کے خلاف تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال کی جارہی تھی۔
ایسے اجلاس تعلقات کو بہتر بنانے اور درست معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ جن لوگوں کے ذہن میں کوئی شک ہو یا کوئی سوال باقی ہو تو وہ دوبارہ ملاقات پر زیر بحث آنا چاہیے۔ یہ نامناسب ہے کہ کوئی ایسے اجلاسوں میں شریک ہو اور بعد میں معلومات کو غلط انداز میں یا پھر اپنے بیانیے کے مطابق پیش کرے۔ قومی سلامتی کا تقاضا اتحاد ہے۔ ملک و قوم کی ترقی کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی روایات کو فروغ دینا ہو گا۔
قومی سلامتی کے تقاضے!!!!
Nov 09, 2021