سعودی ولی عہد کا ممکنہ دورہ پاکستان، سیاسی عدم استحکام اور وزیراعظم کی کوششیں!!!!


سیاسی اختلافات اپنی جگہ ہیں لیکن جہاں ملکی مفادات کی بات ہو وہاں سیاسی مفادات کو قربان کرنا ہی وطن سے محبت اور وطن پرستی ہے۔ میاں شہباز شریف سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ترقیاتی کاموں اور تیز رفتاری سے کام کرنے میں انہیں دیگر سیاست دانوں پر برتری ضرور حاصل ہے۔ وہ مشکل حالات میں وزیراعظم بنے۔ معیشت کی حالت بہت خراب تھی پھر ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار تھا اور سیاسی حالات آج بھی زیادہ اچھے نہیں بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود وہ عالمی سطح پر کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ بالخصوص شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر کے وہ ناصرف مالی مدد کی امید کیے ہوئے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی اہم چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ وزیراعظم نے عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بھی پاکستان کا مقدمہ اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان رواں ماہ کے آخر میں پاکستان کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اگر یہ دورہ ہوتا ہے تو پاکستان کو چار اعشاریہ دو ارب ڈالرز اضافی بیل آو¿ٹ پیکج مل سکتا ہے جبکہ حکومت پاکستان نے اس دورے سے سرمایہ کاری کے اعتبار سے بھی بہت امیدیں لگا رکھی ہیں۔ بالخصوص پیٹرولیم کے شعبے میں بڑی خوشخبری سننے کو مل سکتی ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر شہزادہ محمد بن سلمان رواں ماہ کے آخر میں پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو سعودی عرب کی جانب سے پیٹرولیم کے شعبے میں آئل ریفائنری کے قیام پر معاہدہ ہو سکتا ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہوتا ہے تو پھر سعودی عرب گوادر میں دس ارب ڈالرز کی بڑی سے آئل ریفائنری کے منصوبے پر چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔یہ ایک بڑی پیشرفت ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ دوست ممالک کے تعلقات اور بیرونی سرمایہ کاری کو اندرونی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ پاکستان کو اس وقت ناصرف دوست ممالک سے تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے بلکہ معیشت کو مضبوط بنانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی بھی اشد ضرورت ہے۔
دوسری طرف مصر کے شہر شرم الشیخ میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور ناروے کے وزیراعظم کی مشترکہ صدارت میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی کانفرنس میں میاں شہباز شریف نے پاکستان کا مقدمہ اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ چونکہ پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے اور رواں برس آنے والے سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں بہت تباہی آئی ہے۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور اس کا ذمہ دار پاکستان ہرگز نہیں لیکن اس کی قیمت پاکستان ادا کر رہا ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے شرکاءکو ملک میں سیلاب متاثرین کی مشکلات سے آگاہ کیا۔ بین الاقوامی سطح پر اہم رہنماو¿ں کو یہ احساس دلانا ضروری تھا کہ پاکستان کسی اور کی غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہے اگر اس مرتبہ پاکستان میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے تو کل کسی دوسرے ملک کو بھی ان حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کی مدد درحقیقت لوگ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے کریں گے کیونکہ موسمیاتی اثرات کی تباہی جاری رہی تو دنیا کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس سے بھی ملاقات کی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں آج بھی پانی کھڑا ہے، سیلاب سے نقصانات کا تازہ ترین اندازہ تیس ارب ڈالر ہے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر عالمی رہنماو¿ں اور عالمی اداروں کے سربراہان اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔ تعاون کرنے والے ممالک کا شکریہ ادا کیا۔ یہ کانفرنس پاکستان کے لیے اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آج بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی کھڑا ہے، موسم سرما کا آغاز ہو رہا ہے اور متاثرین کھلے آسمان تلے ہیں۔ وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں، سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑوں کی ضرورت ہے۔ اس مشکل وقت میں دنیا کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔
خبر یہ ہے کہ تاجر اور کوچی قبیلے کے سربراہ نور رحمان کوچی کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت نے میرے نام سے تھریٹ لیٹر جاری کیا اور خط میں لکھا میں عمران خان کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔مجھے اٹھوایاگیا، تفتیش کی اور پھر گھر پر چھوڑ دیا۔ مراد سعید نے پریس کانفرنس میں میرا نام لیا، مجھے افغانی کہا، مجھ پر الزامات لگائے کہ میں افغانی اور سرغنہ ہوں، میں مراد سعید سے کبھی نہیں ملا،میرے پاس انکی کوئی ویڈیوز نہیں۔ مجھ سے متعلق تھریٹ لیٹر میری فیملی کیلئے خطرہ ہے، میں تاجر ہوں، اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔حکومت تحفظ فراہم کرے، جواب دیاجائے میرے خلاف یہ تھریٹ الرٹ کس نے جاری کیا؟
اب یہ معاملہ بھی مشکوک ہو گیا ہے کیا یہ بہتر نہیں کہ الزامات اور ایک دوسرے کو نیچے دکھانے پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ہم آگے بڑھیں، گذشتہ روز بھی لکھا تھا کہ عمران خان دل بڑا کریں، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ایسا کوئی خاص مسئلہ نہیں عوام ان کے ساتھ ہیں، وہ عوامی سیاست کر رہے ہیں اس لیے انہیں عوام میں رہتے ہوئے شہریوں کے روز مرہ معمولات کو متاثر کئے بغیر سیاست کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔ ایک طرف سے ایف آئی آر اور مقدمات ہوتے ہیں، اس کے جواب میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے کیا ایسے ملک ترقی کر سکتا ہے۔ انتخابات کی تاریخ نہیں بھی ملتی تو عام انتخابات میں کون سا دس سال باقی ہیں اس لیے وسیع تر قومی مفاد میں اگر احتجاج کرنا ہے تو منظم انداز میں کریں۔ آئندہ عام انتخابات کی تیاری کریں، حکومت پر جیسے بھی دباو¿ قائم رکھنا چاہتے ہیں ضرور رکھیں لیکن یہ جان لیں کہ کوئی بھی فیصلہ ملک کے امن و امان، لوگوں کی زندگیوں کو خطرے اور مشکلات میں ڈالنے والا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ وہ ملک کے مقبول سیاسی لیڈر ہیں ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے کے لیے انہیں کردار ادا کرنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...