اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج، جسٹس یحیٰ آفریدی نے وفاقی حکومت کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست کے تحریری فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھ کر عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر کے عدم اندراج سے متعلق عدالتی آبزرویشنز کو غیر متعلقہ اور دائرہ کار سے باہر قراردے دیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے سوموار سے کیس کی سماعت کی تھی۔ جس کا دو صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ منگل کے روز جاری کیا گیا ہے، جس میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ عمران خان کے وکیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ ان کا موکل 3نومبر کو قاتلانہ حملے کے بعد حال ہی میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوا ہے اور میری ان کے ساتھ ایک مختصر سی ملاقات ہی ہوئی ہے۔ اگرچہ میں نے عدالت کے حکم کی روشنی میں ان کی جانب سے جواب کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ لیکن وہ اتنا موزوں نہیں ہے حکنامہ کے مطابق عدالت کے استفسار پر انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب نے بتایا ہے کہ تاحال اس واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے حکمنامہ میں آبزرویشن دی ہے کہ آئی جی کا فرض ہے کہ وہ قانون کے مطابق کام کریں اور قابل دست اندازی پولیس کیس میں ایف آئی آر کا اندراج ایک لازمی قانونی تقاضہ ہے ،کل اس حوالے سے عدالت موزوں کارروائی کر کے اس کا جائزہ لے گی، عدالت نے عمران خان کے وکیل کو مناسب جواب داخل کرنے کے لیے مزید چند دن کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت اگلے عدالتی ہفتہ تک ملتوی کر دی ہے۔ تاہم بنچ کے رکن جسٹس یحیٰ آفریدی نے دو لائنوں پر مشتمل ایک علیحدہ اختلافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ انہیں فیصلے کے پیرا نمبر 2 میں دی گئی آبزرویشنز سے متعلق اس عدالت کے دائرہ اختیار کے حوالے سے سنگین ترین تحفظات ہیں، کیونکہ وہ موجود کیس سے متعلق نہیں ہیں۔
جسٹس یحییٰ