منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک


شاعرِ مشرق، حکیم الامت ، مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے ایک صدی قبل دنیا میں مسلمانوں کے زوال کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور اپنی آنکھوں کے سامنے خلافت عثمانیہ کا سقوط دیکھتے ہوئے، اسی اندوہ غم اور نا امیدی کے عالم میں مشہورِ زمانہ ’’ شکوہ ‘‘ اور ’’ جوابِ شکوہ ‘‘کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کیا تھا ، انسان کا اپنے رب سے ’’ شکوہ ‘‘تنزلی اور کسمپرسی پر مبنی تھا ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے ’’ شکوہ ‘‘ کاجواب ’’جواب شکوہ ‘‘ کی صورت میں لکھ کر علامہ اقبال نے مسلمانوں کو جھنجوڑا ، ملتِ اسلامیہ کو الفت و محبت باہمی اتفاق و اتحاد کے ساتھ عملی زندگی میں اطاعت ووفا کی ترغیب دی ۔
ملک میں موجودہ انتشار اور معاشرے میں تفریق ملت اسلامیہ میں نفاق پیدا کرنے کی گھنائونی سازش ہے ،ملکی معیشت ڈانواں ڈول ہے حالات کا تقاضہ ہے کہ قوم میں یکجہتی پیدا کی جائے ، بھائی چارے کا درس دینے والے دست وگریباں ہیں ملکی اداروں پر بہتان طرازی سے ملک کی معیشت تباہ ہو رہی ہے ، علامہ اقبال ’’جوابِ شکوہ ‘‘ میںلکھتے ہیں کہ 
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک 
علامہ اقبال کی شاعری صرف مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کا سبب ہی نہیں بلکہ امتِ مسلمہ میں اتحاد و اتفاق کا ذریعہ بھی ہے، اقبال جیسے فلسفی شاعر اور دانشور کے افکار اور نظریات سے استفادہ نہیں کیا گیا ، اور نا ہی ان کے اقوال کو زندگی کے لائحہ عمل کے طور پر اپنایا گیا ، آج ملکی حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم اقبال کی تعلیمات میں پنہاں فلسفہ خودی اور پیغام ِ وحدت پر عمل پیراء ہوتے ہوئے ملک میں بڑھتے ہوئے انتشار اور تفریق کی سیاست سے لا تعلق ہو کر ملک میں بھائی چارے کی فضاء کوقائم کریں جیسا کہ اقبال نے ’’ جوابَ شکوہ ‘‘ میں لکھا کہ 
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک 
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک 
علامہ اقبال سچے عاشقِ رسول تھے ان کا آپ ﷺ سے عشق ان کی شاعری میں پنہاں ہے اپنی نظم ’’ چاند ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔
اے چاند حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے 
 طوفِ حریم خاکی تیری قدیم خو ہے 
یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں 
عاشق ہے تو کسی کا ،یہ داغِ آرزو ہے 
میں مضطرب زمیں پر ، بیتاب تو فلک پر 
تجھ کو بھی جستجوہے ، مجھ کو بھی جستجو ہے 
بالِ جبریل میں علامہ اقبال انسانی کم علمی پر لکھتے ہیں کہ 
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام 
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں 
یعنی عشق ہی وہ قوت تھی جس نے مجھ پر ساری حقیقت کھول کر رکھ دی ، ورنہ اپنی کم علمی کے سبب قبل ازیں زمین اور آسماں کو لا انتہا اور وسیع تر سمجھا تھا ، تحقیق کہ عشق ہی وہ قوت ہے جو شعورِ ذات اور شعورِ کائنات سے روشناس کراتی ہے ۔ 
 پاکستان میں متعدد ادارے علامہ اقبال کی شاعری اور شخصیت پر تحقیق وتدوین کرنے میں مصروفِ عمل تو ہیں،لیکن تشویش اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اقبالیات پر کام کرنے کے لئے ایسے افراد کو منتخب کیا جاتا ہے جو علامہ ڈاکٹر اقبال کے فلسفہ خودی اور شاہین جیسے استعاروں کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، یہی نہیں علامہ اقبال کے احترام کوبھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جاتا اور ان کی نجی زندگی کو متنازعہ بنایا جارہا ہے، حکمران طبقات بانی پاکستان اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کے ارشادات پر عمل کرنے سے ہمیشہ ہی گریزاں رہے ہیں۔ پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ تھی اب مسلم لیگ کے نام سے ملک میں کئی مسلم لیگیں ہیں سب ہی قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کو اپنا قائد اور رہبر تسلیم کرتی ہیںان مسلم لیگیوں کے نزدیک علامہ اقبال کی عزت وتکریم کا یہ عالم ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ’’اقبال ڈے ‘‘ کی سالانہ چھٹی ہی منسوخ کر دی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نئی نسل اس دن کی مناسبت سے لا علم رہے جو کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے ۔
اقبال کا فلسفۂ خودی مسلمانوں کو ان کی تنزلی اور کسمپرسی سے نکالنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے ، احساسِ غیرت مندی کا جذبہ خوداری اور اپنی ذات و صفات کا پاس اور احساس ، اپنی اناء کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے ، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے ، مظاہرات فطرت سے برسرِ پیکار رہنے ، اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنے دستِ بازو پر بھروسہ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی صلاحیت کو برو ئے کار لانے کا درس ہے ، اقبال کہتے ہیں کہ 
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات 
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن 
یعنی اس ضمن میں مجھے تو ایک قلندر کا قول شرمسار کر گیا کہ اپنی خودی کو چھوڑ کر اگر تو کسی اور کے روبرو جھک گیا تو جان لے کہ تیرے پاس نہ تو روحانی سکون کی دولت باقی رہے گی نا ہی دوسرے مادی فوائد برقرار رہیں گے ۔ 

ای پیپر دی نیشن