ملک میں جاری سیاسی خلفشار اور یوم ِ اقبال کی سرکاری تعطیل کی بحالی

Nov 09, 2022


آج 9 نومبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں شاعر ِمشرق، مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کا 145واں یومِ ولادت عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ اہلِ پاکستان یہ دن ملک کی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کی فکرمندی کے ساتھ منا رہے ہیں۔ اس موقع پر اسلامیانِ پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ بھارت، ایران، افغانستان، ترکی،برطانیہ، جرمنی اور دوسرے ممالک میں مقیم اقبال کے عقیدت مند بھی مختلف تقاریب کے ذریعے انہیں ہدیۂ عقیدت و محبت پیش کرینگے اور مسلم اْمہ کے اتحاد و یگانگت کیلئے اقبال کی سوچ پر عمل پیرا ہونے کے عزم کا اعادہ کرینگے۔ عقیدت مندانِ اقبال آج لاہور میں مزارِ اقبال پر حاضری دیکر انکی روح کو ایصالِ ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کرینگے اور ملک کی ترقی و خوشحالی‘ جمہوریت کے استحکام‘ دہشت گردی کے ناسور سے مکمل نجات اور کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے خصوصی دعائیں مانگیں گے۔ علامہ اقبال کے یومِ ولادت پر آج مزارِ اقبال پر گارڈ کی تبدیلی کی پْروقار تقریب بھی منعقد ہو گی جبکہ سرکاری اور نجی سطح پر  یومِ اقبال کی خصوصی تقاریب منعقد ہوں گی۔ معمارِ نوائے وقت مرحوم مجید نظامی مرکزیہ مجلس اقبال اور دوسرے فورمز پر منعقد ہونیوالی یوم اقبال کی تقاریب کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ آج یوم اقبال کے موقع  ان کی کمی شدت سے محسوس کی جائیگی۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال برصغیر کی ان جلیل القدر ہستیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس اْجاگر کیا اور الگ وطن کا تصور دیا۔ انہوں نے انگریز اور ہندو کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانانِ ہند کی کسمپرسی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ خطۂ ارضی کی ضرورت محسوس کی اور صرف اس پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کر دیا اور پھر ایک دردمند مسلم لیگی قائد کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کو جو انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے مسلمانوں کی حالتِ زار سے مایوس ہو کر مستقل طور پر لندن کوچ کر گئے تھے‘ مراسلہ بھجوا کر واپس آنے اور اسلامیانِ ہند اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کیلئے قائل کیا‘ چنانچہ قائداعظم نے ہندوستان واپس آکر حضرت علامہ کی معیت اور گائیڈ لائن میں مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ متعصب ہندو بنیئے کی اقتصادی غلامی سے بھی نجات دلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا‘ تاہم علامہ اقبال کی عمر عزیز نے وفا نہ کی اور وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار مملکت کیلئے 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونیوالی قرارداد لاہور سے دو سال پہلے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے جن کے بعد قائداعظم نے اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد میں پیش کئے گئے تصورِ پاکستان کو سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پْرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسلامیانِ ہند کی پرجوش معاونت سے حقیقت کے قالب میں ڈھال دیا۔ علامہ اقبال بے شک لیڈر شناس بھی تھے‘ جنہیں مکمل ادراک ہو چکا تھا کہ محمد علی جناح کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کی منظم تحریک سے ہی ان کیلئے الگ وطن کے حصول کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جبکہ اقبال بذاتِ خود برصغیر کے مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے جو اپنی قومی اور ملی شاعری کے ذریعے بھی انکے جذبات متحرک رکھتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میسر نہ ہوتی تو ان کیلئے ایک الگ مملکت کی کبھی سوچ پیدا ہوتی نہ اسکا حصول ممکن ہوتا۔ قائداعظم خود بھی علامہ اقبال کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف تھے‘ جنہوں نے انکے انتقال پر تعزیتی بیان میں اعتراف کیا کہ ان کیلئے اقبال ایک رہنماء بھی تھے‘ دوست بھی اور فلسفی بھی تھے‘ جو کسی ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے عزم میں متزلزل نہ ہوئے اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو اپنی بے لوث‘ بے پایاں اور اتحادِ ملّی کے جذبے سے معمور جدوجہد کے نتیجہ میں اسلامیانِ برصغیر کیلئے ایک الگ ارضِ وطن کا خواب حقیقت بنا دیا مگر بدقسمتی سے انکی جانشینی کے دعوے دار سیاسی قائدین سے نہ آزاد و خودمختار ملک اور مملکت کو سنبھالا جا سکا اور نہ ان سے اتحاد و ملت کی کوئی تدبیر بن پائی جبکہ مسلم لیگ کے جن قائدین کو ملک خداداد کی ترقی و استحکام کی ضمانت بننا چاہیے تھا‘ انکی عاقبت نااندیشیوں سے آزاد اور خود مختار مملکت میں بھی مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر نہ ہو پائی اور نہ ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے وہ مقاصد پورے ہوئے جن کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کے الگ خطہ کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ مفاد پرست سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ کر قائد کے وضع کردہ اصولوں اور انکے مشن سے ہٹ گئی جبکہ اقتدار کی کشمکش نے اس پارٹی کو مختلف حصوں اور گروپوں میں تقسیم کر دیا اور یہ گروپ اقتدار کی راہداریوں میں مٹرگشت کرتے کبھی ماورائے آئین اقدام والوں کو اپنے کندھے فراہم کرتے رہے‘ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کی تکمیل میں معاون بنتے رہے، کبھی سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں کے ہاتھوں جمہوریت کا مردہ خراب کراتے رہے اور کبھی چور دروازے سے اپنے اقتدار کے راستے ہموار کرتے نظر آتے رہے۔ بے شک مختلف لیگی گروپوں کو اقتدار میں آنے کے مواقع ملتے رہے ہیں مگر خالص مسلم لیگ کی حکمرانی کا خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پایا۔ میاں نوازشریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو زیادہ عرصہ تک اقتدار میں رہنے کا موقع ملا اور انکے متوالے انہیں ’’قائداعظم ثانی‘‘ بھی قرار دیتے رہے تاہم اقتصادی طور پر مستحکم اور نظریاتی طور پر روشن و مضبوط پاکستان کا بانیٔ پاکستان کا خواب انکے ادوار میں بھی ادھورا ہی رہا۔ اس وقت بھی مسلم لیگ کا یہی گروپ میاں شہبازشریف کی زیرقیادت مخلوط حکومت میں شامل ہے مگر اس مملکت خداداد کے باسیوں کی اقتصادی غلامی اور غربت و افلاس کا وہی عالم ہے جس سے برصغیر کے مسلمانوں کو خلاصی دلانے کیلئے اقبال کے تصور پاکستان کو قائداعظم نے عملی قالب میں ڈھالا تھا۔  حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجہ میں عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل میں جس شدت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے لاتعلق نظر آتی ہے، اس سے اقبال و قائد کا تصورِ پاکستان بھی گہنایا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہم آج کا یوم اقبال ان حالات میں منا رہے ہیں کہ ملک میں عملاً سیاسی عدم استحکام کی فضا طاری ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کو جواز بنا کراور اپنی حکومت کے خاتمہ کے حوالے سے امریکی سازش کا بیانیہ تراش کر عمران خان نے اودھم مچانے والی اپنی سیاست کے ذریعے جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ انہوں نے ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کیخلاف بلیم گیم کا جو سلسلہ شروع کیا ہے‘ وہ ملک کو عدم استحکام اور انتشار کی جانب دھکیل رہا ہے جبکہ وہ خود بھی اپنی پیدا کردہ منافرت کی فضا کی بھینٹ چڑھے اور اپنے لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد میں ایک جنونی شخص کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ انکے اور انکے ساتھیوں  کے زخمی ہونے پر بلاشبہ پوری قوم کو صدمہ پہنچا مگر وہ اس پر بھی سیاست کر رہے ہیں اور مصر ہیں کہ اس فائرنگ کا مقدمہ وزیراعظم‘ وفاقی وزیر داخلہ اور افواج پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر کیخلاف درج کیا جائے تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت پر وزیرآباد پولیس نے فائرنگ کے واقعہ کی ایف آئی آر درج کرلی ہے جس میں فائرنگ کرنیوالے شخص کو ہی اسکے اقبالی بیان کی بنیاد پر ملزم گردانا ہے مگر پی ٹی آئی نے اس ایف آئی آر کو مسترد کر دیا ہے اور جمعرات سے دوبارہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے جو ملک میں افراتفری مزید بڑھنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ آج بانیانِ پاکستان اقبال و قائد حیات ہوتے تو مفاد پرست سیاست دانوں کے ہاتھوں ملک اور سسٹم کی درگت بنتے دیکھ کر انتہائی دل گرفتہ ہوتے۔ 
 بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو اس ملک خداداد کیلئے اتحاد‘ ایمان‘ یقین محکم کی بنیاد فراہم کی تھی مگر آج ملک کی سلامتی کے حوالے سے دشمن کے درپیش چیلنجوں کے باوجود ہم قومی اتحاد و یکجہتی کی منزل سے دور ہٹتے نظر آتے ہیں اور غربت‘ مہنگائی کے ہاتھوں راندۂ درگاہ بنے عوام اس ارضِ وطن کیلئے اقبال و قائد جیسی میسحائی کے منتظر ہیں۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ وفاقی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور میں منسوخ کی گئی یومِ اقبال کی سرکاری تعطیل بحال کر دی ہے جو قومی مشاہیر میں شامل علامہ اقبال کی ملی اور قومی خدمات کا اعتراف ہے۔ یومِ اقبال کی سرکاری تعطیل منسوخ کرنے کا مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور کا عاجلانہ فیصلہ عوامی احتجاج کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت نے بھی برقرار رکھا تھا۔ موجودہ حکومت نے یہ سرکاری تعطیل بحال کرکے درحقیقت قومی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔بے شک  قوم کو کسی کاز کے ساتھ منسلک کرکے ہی قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا مستحکم بنائی جا سکتی ہے مگر اسکے بجائے عوام کو انتہاء درجے کی مہنگائی اور غربت و بے روزگاری کے مسائل میں الجھا کر انہیں سیاسی عدم استحکام کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ ملک میں ایسی ہی صورتحال کا ہمارا دشمن منتظر ہوتا ہے جو ہماری سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پایۂ تکمیل کو پہنچانے کیلئے ہمہ وقت سرگرداں ہے۔ اس تناظر میں آج کا یوم اقبال سرکاری اور نجی سطح پر اس جذبے کے ساتھ منانے کی ضرورت ہے کہ دشمن کو اسکے عزائم کے مقابل قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام جائے۔ ہماری قومی سیاسی قیادتوں کیلئے خطے کی موجودہ صورتحال تو لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے۔ ہمیں آج اپنے معاملات کا تعلیمات اقبال کی روشنی میں ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ 

مزیدخبریں