علامہ اقبال کا تصور ِجمہوریت


پاکستان کے عوام اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ جمہوری تماشہ دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔ عوام کی افسوس ناک خاموشی ریاست کی آزادی اور سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں رائج سیاسی و جمہوری نظام قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور سیاست و جمہوریت سے کھلا انحراف ہے۔ جو قوم قرآن اور سیرت سے انحراف کر رہی ہو اور ریاست کو ماورائے آئین چلایا جا رہا ہو اس کی نظر میں علامہ اقبال کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے چونکہ انسانوں کو امر بالمعروف نہی عن المنکر یعنی نیکی کی تبلیغ اور برائی کی مزاحمت کا حکم دیا ہے لہٰذا اس حکم پر عمل ہر باشعور انسان کا فرض ہے۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اللہ
علامہ اقبال نے اپنے اردو اور فارسی کلام میں فرمایا تھا کہ 200 گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر پیدا نہیں ہوسکتی لہٰذا جمہوری نظام میں افراد کو گننے کے بجائے تولنا چاہیے اور عوامی نمائندے صادق امین اور اہل ہونے چاہئیں۔ افسوس موجودہ اسمبلیوں کے اراکین الا ماشاء اللہ اس بنیادی اخلاقی اصول پر پورے نہیں اترتے یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں سیاسی و جمہوری عدم استحکام ہے اور عوام پاکستان کے سیاسی و معاشی مستقبل کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے مغرب کے جمہوری نظام کو جبر و استبداد کا لبادہ ملوکیت کا پردہ اور ملوکیت کی ایک تبدیل شدہ صورت قرار دیا تھا انہوں نے کہا تھا۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
عوام بے شعور ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ برطانیہ میں جو جمہوری نظام رائج ہے وہ پاکستان سے مختلف ہے اور ہم تسلسل کے ساتھ اسی نظام پر گامزن ہیں جسے متحدہ ہندوستان میں قومی وسائل کی لوٹ مار اور عوام کے استحصال کے لیے رائج کیا گیا تھا۔ جمہوریت کی کامیابی کے لئے معیار تعلیم مخصوص طرز زندگی اور سیاسی شعور ضروری ہوتا ہے جسے گزشتہ 75 سالوں کے دوران پیدا ہی نہیں ہونے دیا گیا۔علامہ اقبال نے قائداعظم کے نام اپنے ایک خط میں تحریر کیا تھا کہ سماجی جمہوریت ہی اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو سکتی ہے۔افسوس پاکستان میں رائج موجودہ جمہوریت سماجی نہیں ہے بلکہ اشرافیائی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبہ نمبر 6 میں تحریر کیا تھا کہ مسلم سماج میں ایسی روحانی جمہوریت ہونی چاہیے جو اسلام کی اخلاقی اقدار دیانت صداقت اخوت آزادی اور مساوات کے تابع ہو نہ کہ ایسی شیطانی جمہوریت جو کرپشن مفاد پرستی موقع پرستی اقرباپروری اور استحصال پر مبنی ہو۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک آرٹیکل میں تحریر کیا ایسی جمہوریت ہی بہترین نظام ہے جس کا مقصد یہ ہو کہ ہر فرد کو اس قدر آزادی ہو کہ اس کی فطرت کے تمام امکانات کو ترقی اور نشوونما کے مواقع فراہم ہو سکیں (زندہ اقبال: علم و عرفان پبلشرز اردوبازار لاہور)۔ علامہ اقبال مادر پدر آزادی کے خلاف تھے ۔ پاکستان کی موجودہ جمہوریت علامہ اقبال کے ان تصورات کے یکسر منافی ہے کیونکہ موجودہ جمہوریت میں عوام کو مساوی مواقع اور مساوی مراعات ہی حاصل نہیں ہیں۔ ایک اور آرٹیکل میں علامہ اقبال نے تحریر کیا کہ جمہوریت کو انسانوں کی غیر مشروط اور کامل مساوات پر مبنی ہونا چاہیے جو معاشی تفاوت کے باوجود قانون کی نظر میں مساوی حقوق کے مالک ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام کا المیہ یہ ہے کہ اس میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے اور شہریوں کو مساوی حقوق نہیں دیے جاتے ۔ علامہ اقبال ایک ایسے جمہوری نظام کے علمبردار تھے جس میں اراکین قومی اسمبلی کا انتخاب سرمایہ اورجاگیر کی بنیاد پر نہیں بلکہ اہلیت اور دیانت کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایسا جمہوری نظام جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور حاکم بھی قانون کے تابع ہو عوام کو مساوی مواقع اور حقوق حاصل ہوں اور ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب رنگ اور نسل ترقی اور نشوونما کے مواقع حاصل ہو سکیں۔ پاکستان کا موجودہ جمہوری نظام اقبال کے روحانی اور سماجی جمہوریت کے تصور کے مطابق نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ کا نظام ہے جس کی بنیاد سرمایے کرپشن اور مفاد پرستی پر رکھی گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بجائے شخصیت پرستی کو پروان چڑھاتی ہیں اس جمہوری نظام میں اخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں اور قانون صرف کمزور افراد پر لاگو ہوتا ہے۔ اشرافیہ قانون سے بالاتر ہے اور قانون اور انصاف کو خرید لیتی ہے۔ اس نظام میں سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی منتخب ہوتے ہیں جو عوام کا استحصال کرتے ہیں اور ترقی کرنے کے مساوی مواقع فراہم نہیں کرتے۔ علامہ اقبال نے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے بارے میں فکری اور نظریاتی فتویٰ دیا تھا انہوں نے فرمایا تھا
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآن نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
علامہ اقبال نے اپنے فارسی کے ایک شعر میں دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا تھا
تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام
اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو الٹ پلٹ کر نہ رکھ دیا جائے ایسے نظام میں عقل و دانش تہذیب و تمدن تدبر کی جادوگری اور دین کی باتیں سب خام خیالی ہوتی ہیں اور ان سے مثبت سماجی تبدیلی نہیں آسکتی۔ علامہ اقبال کا لازوال فکری فتوی درست ثابت ہوا ہے ہے۔ پاکستان کے گزشتہ 75 سال کے تجربات اور مشاہدات اس کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ 1946ء کے انتخابات پاکستان کے قیام کے لئے بڑی اہمیت کے حامل تھے۔  انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ سندھ کے انتخابی کمیٹی کے چیئرمین جی الانہ نے قائد اعظم سے کہا کہ انہیں ووٹ خریدنے کے لئے پارٹی فنڈ کی ضرورت ہے قائد اعظم نے ان کو جواب دیا کہ میں انتخابات ہار نا پسند کروں گا مگر ووٹ خریدنے کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دوں گا۔ افسوس آج جمہوریت اور سیاست سرمایہ کی سیاست بن چکی۔جب تک پاکستان کا سیاسی اور معاشی نظام قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق تشکیل نہ دیا جائے پاکستان کبھی ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن