اقبالؒ کی شعری ابلاغی حکمت عملی


ارتباطِ حرف ومعنی، اختلاط جان و تن
جس طرح اخگر قبا پوش  اپنی خاکستر میں ہے
 اس سے قبل ابلاغی حکمت عملی کے مجرد تصور، اسکے رموز و اوقاف، اسکی مختلف تہیں، پرتیں اور جہتیں سے متعلق  بات کی جائے کی جس طرح علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے اسکی تفصیل میں جائیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم اقبالؒ کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کے تاثرات کا مختصر ذکر کر دیں تاکہ ہمارے قومی شاعر کے بارے میں بانی پاکستان کے جذبات کا بھی ذکر ہو جائے۔ اقبال کی وفات پر 1929 میں قائد اعظم انکی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’اقبال کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے، بڑے ادیب بلند پایہ شاعر اوروہ عظیم مفکر تھے مرحوم دورے حاضر میں اسلام کے بہترین شارھ تھے۔ کیونکہ اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ انکی قیادت میں سپاہی کی حثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا‘‘
بانی پاکستان ان کی شاعری اور اس کی عالمگیر شہرت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’شعراء  اقوام میں جان پیدا کرتے ہیں، ملٹن شیکسپئیر اور بئرن وغیرہ نے قوم کی بے بہا خدمت کی۔ گویہ بانی پاکستان علامہ اقبال کی شاعری کو دنیا بھر کے عظیم ترین شعراء سے بڑھ کر عزت، عظمت اور انکے قومی جذبے کو سہراتے ہیں چونکہ انہوں نے اقبال کو عالمگیر شہرت کا حامل شاعر قرار دیا ہے اس لیے راقم نے بھی اقبال کی شاعری کی ابلاغی حکمت عملی کے چند چیدہ چیدہ جوہر تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔  اقبال سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں مختلف زبانوں میں شاعر شعر کہ رہے تھے اور آئندہ بھی کہتے رہیں گے لیکن اقبال نے ایک بے حس قوم کو اپنے پیغام سے جس طرح نئی زندگی عطا کی اور جو بلآخر آزاد مملکت کی صورت میں ظاہر ہوئی وہ کوئی عام ابلاغ کار کا کام نہیں تھا۔
اقبال کی شعری ابلاغی حکمت عملی کے کئی عناصر اور اجزاء ہیں جن کوترغیبی،ترہیبی،تشریقی ،اشتیاقی اورمعروف کہتے ہیں ۔شعری ابلاغی حکمت عملی کے مزکورہ بالا اجزاء کی تھوڑی اس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے کہ مثلاً جیسے ہم نے پہلے ترغیبی کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس سے مراد ہے کو وہ اپنے سامع یا قاری کو اس بات کا مکمل یقین دلاتے ہیں کہ وہ انکے اشعار کی روشنی میں کسی اور کا بھلا کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑھ کر وہ اپنی شخصیت اور ذات کو سنوار اور نکھار رہا ہے اور اس طرح اپنی ذاتی عظمت کے لیے کوشاں ہو گا انکا عام شعر دیکھیں۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا اپنا تو بن
ترہیبی کا معنی ہے کسی چیز سے خوف دلا کر کسی اچھے کام کی ترغیب دینا اس کا انہوں نے اپنے عام اشعار میں ذکر کیا ہے کہ جب تک آپ کسی دوسری قوم کے غلام ہیں اس وقت تک آپکی عزت نفس محفوظ نہیں رہ سکتی اگر آپ نے اپنی عظمت اور عزت کو برقرار رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ آپ غلامی کے جوئے کو اپنی گردن سے اتار پھینکیں مثلاً وہ کہتے ہیں۔
خدائی اہتمام خشک وتر ہے
خداوندا، خدائی درد سر ہے
ولیکن بندگی استغفراللہ
یہ درد سر نہیں درد جگر ہے
تو گویا خدائی سے بندگی کی گراوٹ سے جو بندہ گر جاتا ہے اور افضل ترین مقام پر پہنچ کر اپنی عزت نفس کو پارہ پارہ کر بیٹھتا ہے اسی طرح آپ دیکھیں توقیر آدم کے مثبت تصور کو فرشتوں سے بھی بہتر قرار دینے کے لیے وہ جبریل اور شیطان کا مکالمہ تحریر کرتا ہے۔ اسی طرح شکوہ جواب شکوہ میں اللہ تعالٰی سے، جہاں انسانی کمزوریوں کا اعتراف کرتا ہے وہاں طبقاتی نظام اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم بڑی قوموں کا چھوٹی قوموں کا استحصال اور انکے وسائل کا بے دریح اور غیر منصفانہ چھین لینا ہے جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب نے مشرق وسطٰی کا سارا ثقافتی ورثہ، پرتگیزیوں نے مشرق بعید کے تمام وسائل اور فرنگیوں نے چین کو افیم دے کر ان سے سونا چاندی ریشم اور منفرد منصوعات چھین لی اور انہیں ایک افیم ذدہ کر دیا۔ یہاں تک کہ انکا جو مالدار جزیرہ ہانگ ہانگ جیسا خوبصورت جزیرہ کو تقریباً ایک سو پچاس سال تک اپنے زیر تسلط رکھا۔ ابھی چینیوں نے واپس لیا ہے۔اس مختصر تحریر ابلاغی حکمت عملی کے تمام زاویے بیان نہیں ہوئے جو سلسہ جاری رہے گا۔ تاہم ہم اپنی اس کاوش کو قائد اعظم کے اس اعتراف پر کہ اقبال ایک عالمگیر شخصیت تھے   اسلے انہیوں نے تمام اقوام عالم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ اپنی شعری ابلاغی حکمت عملی سے انسانیت کو ایک منفرد اندازسے ابلاغ کا پیغام دیا۔

  

ای پیپر دی نیشن