پاکستان ابتدائی میچز میں ناکامی کے بعد مسلسل کامیابیوں کا اعتماد لے کر سیمی فائنل تک پہنچا
نیوزی لینڈ کی افتتاحی جوڑی تیز کھیلنے اور اٹیک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے
نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے پاکستان کو مضبوط اور بہترین ٹیم قرار دیا ہے
بابراعظم سپیشل کرکٹر ہے، بڑا پلیئر، سیمی فائنل میں اچھا کھیلے گا: مینٹور میتھیو ہیڈن
پاکستان آج نیوزی لینڈ کے خلاف ورلڈکپ کا سیمی فائنل کھیل رہا ہے۔ سیمی فائنل تک پہنچنے کا سفر حیران کن ہے۔ اس دوران قومی ٹیم نے ہر دوسرے میچ میں حیران کن اور غیر متوقع کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ عالمی کپ کے آغاز سے قبل پاکستانی ٹیم سے بہت زیادہ توقعات نہیں تھیں اور ٹیم کا آغاز بھی کوئی بہت اچھا نہیں تھا بس گرتے پڑتے لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل پہنچ ہی گئی، راستے بنتے گئے اور گرین شرٹس کے لیے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ایک وقت میں پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر نظر آنے والی پاکستانی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر پہلے نمبر پر بھی نظر آتی رہی۔ کرکٹ کو اتفاقات کا کھیل ضرور کہا جاتا ہے لیکن پاکستان ٹیم ان اتفاقات میں بھی کمال رکھتی ہے۔ جب تک پاکستان ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ نہیں گئی اس وقت تک اگر، مگر، یہ جیت جائے وہ ہار جائے اس کے میچ میں بارش ہو جائے ایسا ہو جائے ویسا ہو جائے اس قسم کی باتیں ہر وقت سننے کو ملتی رہیں لیکن گروپ میچز کے آخری دن جنوبی افریقہ کی غیر متوقع اور حیران کن ناکامی نے پاکستان کے سیمی فائنل کھیلنے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہٹا دی۔ جنوبی افریقہ کی نیدرلینڈز کے خلاف شکست آج بھی ماہرین کو ہضم نہیں ہو رہی ایک بہترین ٹیم کیسے ایک نہایت کمزور اور ناتجربہ کار ٹیم سے اہم ترین میچ میں شکست کھا سکتی ہے لیکن یاد رکھیے یہ کام جنوبی افریقہ ہی کر سکتی ہے کیونکہ ان کی تاریخ ایسے میچز سے بھری پڑی ہے۔ آئی سی سی کے ایونٹس میں اچھی بھلی ٹیم ہونے کے باوجود جنوبی افریقہ نے اہم میچز میں ہمیشہ مایوس کن کھیل کا مظاہرہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں "چوکرز" بھی کہا جاتا ہے اور اس مرتبہ بھی انہوں نے خود کو اہم میچز کی کمزور ٹیم ثابت کیا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کو بنگلہ دیش جیسے آسان ، اور ذہنی طور پر کمزور حریف کا سامنا تھا پاکستان نے بنگلہ دیش کو شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنائی اور آج پاکستان نیوزی لینڈ کے مدمقابل ہے۔ یہ میچ جیتنے کے بعد پاکستان ورلڈکپ ٹرافی سے صرف ایک فتح کی دوری پر ہو گا۔
نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کو نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ کیویز نے ہمیشہ اہم میچز میں پاکستان کے خلاف اہم میچز میں صلاحیتوں سے کم تر کھیل پیش کیا ہے وہ بہت اچھی کرکٹ کھیل کر اس مرحلے تک پہنچتے ہیں لیکن پاکستان کے خلاف انجانے دباؤ کا شکار رہتے ہوئے اچھی کرکٹ کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوتے اور سارا ٹورنامنٹ اچھا کھیلنے کے باوجود ناک آؤٹ مرحلے میں خراب کرکٹ کھیل کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو جاتے ہیں۔ نیوزی لینڈ اس بری تاریخ کے ساتھ آج پاکستان کے خلاف میدان میں اترے گا۔ جب کہ پاکستان ابتدائی میچز میں ناکامی کے بعد مسلسل کامیابیوں کا اعتماد لے کر سیمی فائنل کھیل رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی کپ سے قبل نیوزی لینڈ کو اس کے میدانوں پر تین ملکی سیریز میں بھی شکست دی تھی لیکن ورلڈکپ میں نیوزی لینڈ نے اس سیریز کی نسبت زیادہ بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا ٹیم کامبی نیشن زیادہ اچھا رہا جب کہ پاکستان بھارت اور زمبابوے سے شکست کے بعد جیسے تیسے بھی لیکن کامیابی ضرور حاصل کرتا آیا ہے اور یہی اعتماد ٹیم کے کام بھی آ سکتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی افتتاحی جوڑی تیز کھیلنے اور اٹیک کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے لیکن یہاں انہیں نسبتاً تیز، ذہنی طور پر مضبوط اور چالاک باؤلرز کا سامنا ہو گا۔ پاکستان کی باؤلنگ اس ورلڈکپ کا سب سے بہتر باؤلنگ اٹیک دکھائی دیتا ہے۔ جہاں دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ کے بہت کامیاب اور تیز گیند باز موجود ہیں، پاکستان کے پاس نئے اور پرانے گیند کے ساتھ باؤلنگ کرنے والے اچھے باؤلرز موجود ہیں، وکٹیں حاصل کرنے سے شاہین آفریدی کا اعتماد بھی بہتر ہوا ہے جب کہ حارث رؤف مسلسل عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالف بلے بازوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ وہ ناصرف رنز کم دے رہے ہیں بلکہ وکٹیں بھی حاصل کر رہے ہیں۔ نسیم شاہ بھی کامیابی کے ساتھ ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ ضرورت کے مطابق اپنی رفتار میں ردوبدل کرتے ہیں اور بلے باز اسے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ وسیم جونیئر بھی عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان سب کی موجودگی میں شاداب خان اننگز کے درمیان میں وکٹیں لے کر مخالف ٹیم پر دباؤ بڑھاتے ہیں جب کہ ان کی مدد کے لیے افتخار اور نواز بھی موجود ہیں۔ جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف شاداب خان نے ایک ہی اوور میں دو دو وکٹیں لے کر جو دباؤ قائم پاکستان کو اس سے بہت فائدہ ہوا۔ اب سیمی فائنل میں بھی ان باؤلرز سے ایسے ہی کھیل کی توقع ہے۔ نیوزی لینڈ آسان حریف ہرگز نہیں ان کے پاس مڈل آرڈر میں بھی اچھے بلے باز موجود ہیں اگر پاکستان نے غلطیاں نہ کیں اور دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھایا تو کیویز کے خلاف فتح یاب ہو سکتے ہیں۔ اوپنرز ڈیوین کانوائے، فن ایلن اور کین ولیمسن کی وکٹین جلد مل گئیں تو نیوزی لینڈ کے لیے واپسی مشکل ہو سکتی ہے۔
نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے پاکستان کو ایک مضبوط اور بہترین ٹیم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی ہمارے خلاف کامیابیاں ماضی کا حصہ ہیں۔ ورلڈکپ میں دونوں ٹیموں نے اچھی کرکٹ کھیلی ہے، ہمارے کھلاڑی کنڈیشن سے ہم آہنگ ہیں۔ فن ایلن کے لیے اہم ہو گا کہ وہ اپنا نیچرل گیم کھیلے جب کہ سیمی فائنل میں کون فیورٹ ہے یہ کہنا مشکل ہے ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میں تیزی سے اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے مینٹور میتھیو ہیڈن کہتے ہیں کہ بابر اعظم ایک سپیشل کرکٹر ہے سیڈم گلکرسٹ کا بھی2007 ورلڈکپ برا گزر رہا تھا لیکن پھر اس نے فائنل میں ٹیم کو فاتح بنا دیا۔بابر اعظم ہر میچ میں رن نہیں بنا سکتا ایسا وقت سب پر آتا ہے وہ بڑا پلیئر ہے سیمی فائنل میں اچھا کھیلے گا۔ شاہین اب مومینٹم میں آ گیا ہے۔ چار فاسٹ بولرز کا ایک خطرناک کمبی نیشن ہے۔ ٹاپ آرڈر نے کام نہیں کیا لیکن مڈل آرڈر نے اچھا کھیلا۔ محمد حارث کی کہانی ایسی ہے کہ سب سننا چاہتے ہیں، اس نے ہر نیٹ سیشن میں حصہ لیا اور فاسٹ بولرز کو اچھا کھیلا، اس ٹورنامنٹ میں سب کا آپ ڈاؤن ہو رہا ہے۔ آسٹریلیا میں اگر کوئی گراؤنڈ برصغیر کی ٹیموں کو سوٹ کرتا ہے تو وہ سڈنی ہے جبکہ نیوزی لینڈ نے بھی اس گراؤنڈ پر آسٹریلیا کو ہرایا ہے اس لحاظ سے وہ خطرناک ٹیم ہے، کیویز کا بولنگ اٹیک خطرناک اور تجربہ کار ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ افتتاحی جوڑی کی مسلسل ناکامی ہے۔ عالمی کپ شروع سے قبل یہ پاکستان کا مضبوط ترین اور مڈل آرڈر کمزور ترین شعبہ تھا لیکن ورلڈکپ میں سب اس کے برعکس ہوا آج بابر اور رضوان سے رنز نہیں ہو رہے لیکن مڈل آرڈر میں افتخار احمد، شان مسعود، شاداب خان اور محمد حارث رنز کرتے ہوئے آ رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کا باؤلنگ اٹیک تجربہ کار بھی اور اس میں رفتار بھی نظر آتی ہے۔ بابر اور رضوان جیسے کھلاڑی بڑے میچوں کے کرکٹرز ہیں اور یہ کم بیک کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔ شائقینِ کرکٹ اور سابق کرکٹرز پاکستان اور بھارت کا فائنل دیکھنا چاہتے اور اس فائنل کے لیے پاکستان کو نیوزی لینڈ اور بھارت کے لیے انگلینڈ کو ہرانا ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حیران کن کھیل کا مظاہرہ کرنے والی پاکستانی ٹیم آج پھر دنیا کو حیران کرتی ہے یا نہیں۔دعا ہے کہ پاکستان ٹیم ناصرف سیمی فائنل جیتے بلکہ فائنل میں جو بھی مدمقابل آئے اسے شکست دے کر ورلڈکپ کے ساتھ وطن واپس آئے۔