اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)پاکستان میں نوجوان تمباکو نوشی کی وبا سے لڑ رہے ہیں ۔کسی بھی صنعت کو نوجوانوں کے مستقبل کوخطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔پاکستان میں تمباکو کنٹرول کی کوششیں تبھی پائیدار ہو سکتی ہیں جب تمام اسٹیک ہولڈرز تمباکو کی صنعت کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کریں۔تمباکو کی صنعت نے متعدد محاذوں پر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے، تمباکو کی صنعت کی وجہ سے ہونے والے بڑے عدم توازن کو اضافی ہیلتھ ٹیکس لگانے سے ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔مقررین نے ان خیالات کا اظہار سوسائٹی فار پروٹیکشن آف رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک)کے زیر اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں "پاکستان میں تمباکو کنٹرول کی مستحکم پالیسیوں کی ضرورت" کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، مہمان خصوصی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر شبانہ سلیم تھیں جبکہ ڈاکٹر ضیا الدین اسلام، شارق محمود خلیل احمد ڈوگر سمیت دیگر شخصیات اور میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد تقریب میںموجود تھی۔ اس موقع پر مہمان خصوصی ڈاکٹر شبانہ سلیم کا کہنا تھا کہ پاکستان خوش قسمت ہے کہ یہاں نوجوانوں کی آبادی کی اکثریت ہے جو ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں۔ تاہم یہ نوجوان تمباکو کی وبا سے لڑ رہے ہیں ۔ پاکستان میں ہر روز 6 سے 15 سال کی عمر کے تقریبا 1200 بچے سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ ہم کسی بھی صنعت کو اپنے نوجوانوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے کے لیے جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
تمباکو صنعت نے متعدد محاذوں پر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا،شبانہ سلیم
Nov 09, 2022