ڈاکٹر طالب حسین سیال
حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کا یوم ولادت آج ملک بھر میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ شاعر مشرق کی ملک وقوم کیلئے خدمات کے حوالے سے آج کے دن ریڈیو اور ٹیلی وژن سے سوانحِ اقبال اور فکرِ اقبال پر ہمیشہ کی طرح پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ کانفرنسوں اور سیمینارز میں اقبال کے تصور خودی کی تعبیر و توضیح پر مقالے پڑھے جاتے ہیں۔ اقبال کے نام پر قائم ، کئی تنظیمیں اور ادارے بھی فروغِ فکر ِ اقبال پر کام کر رہے ہیں۔ دینی علما، سیاسی قائدین اور سماجی رہنما بھی اپنے خطبات اور تقاریر کو دل کش اور مو¿ثر بنانے کے لئے اقبال کے اشعار استعمال کرتے ہیں۔ خودی کاتصور علامہ مرحوم کے افکار کا مرکزی خیال ہے۔ اِس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ من حیث القوم ہم نے اقبال کے تصورِ خودی کے تقاضے پورے نہیں کئے۔ ہم پاکستان کو ایک خود کفیل ، خوشحال اور روشن خیال جدید اسلامی فلاحی ریاست نہیں بنا سکے اور بین الاقوامی سطح پر معاشی و سیاسی لحاظ سے پاکستان کو ایک با اثر ریاست کی حیثیت سے منوا نہیں سکے۔ علامہ اقبال کے نزدیک خودی کو بیدار کرنے کے لئے اپنی روایات سے وابستگی کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم کی تحصیل بھی ضروری ہے۔ جب تک ہم سائنسی اور سماجی علوم میں دنیا کی دیگر قوموں کے ہم پلہ نہیں ہوں گے اس وقت تک ہم دنیا کی مسابقتی معیشت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی سر اٹھا کر چل سکتے ہیں۔ اقبالؒ نے انسان کے بارے میں کہا تھا :
ترے علم و حکمت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کرسازِ فطرت میں نوا کوئی
علامہ اقبال تعمیرِ خودی کے لئے عالمِ آفاق اور عالمِ انفس دونوں میں غور و فکر کے لئے سائنسی علوم ( Natural Sciences) اور سماجی علوم میں نئی تحقیقات پر زور دیتے ہیں۔ سائنسی علوم کے بغیر کوئی قوم خوشحال ہو سکتی ہے نہ عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ سائنسی ایجادات نے انسان کو اعتماد اور طاقت دی ہے۔ زندگی کو آسان بنایا اور بیماریوں کا علاج بتایا ہے۔ آج دنیا میں وہی قوم طاقت ور ہے اور اس کی خودی مستحکم ہے جو سائنس کے علوم میں سب سے آگے ہے۔گویا دوسری اقوام کی دست نگر قوم اپنی خودی کی کیسے حفاظت کر سکتی ہے۔ اِسی لئے اقبال ؒ نے یورپ کی سائنس اور سماجی علوم میں جدید تحقیقات سے استفادہ کرنے کی نصیحت کی تھی۔
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
سائنس کی فتوحات سے انسان نے بہت کچھ پایا ہے لیکن انسانی سیرت و کردار کی تعمیر سائنس کا موضوع نہیں۔ اعلیٰ انسانی اوصاف پیدا کرنے اور ان کی پرورش کے لئے اخلاقیات کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اخلاقیات اور مذہب کی تعلیمات سے بے نیاز ہوکر انسان شہوات نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ خاندان کا نظام منتشر اور سماجی زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ اگر اخلاقیات پر انسان عمل کرنا چھوڑ دے تو وہ درندہ بن جاتا ہے۔ سائنسی علوم اخلاقی اقدار کے بغیر دنیا میں تباہی اور فطری حیات کے بگاڑ کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لئے علامہ اقبال مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی بالیدگی اور اخلاقی رفعت کے لئے مذہب اور سماجی انصاف کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں۔ انفرادی خودی اور قومی خودی کے استحکام کے لئے علوم کی ترقی کے ساتھ ایسے نظامِ تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جو مکارمِ اخلاق سے مزین انسان پیدا کر سکے۔
ہم اقبال سے محبت و عقیدت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے تصورِ خودی پر عمل نہیں کرتے۔ ہم ان کے اشعار پڑھتے پڑھاتے ہیں اور سرشار ہوکر سر دھنتے ہیں لیکن ان اشعار کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔ یہ شعر خواص و عوام کو یاد ہے اور وہ اِسے آزادی اور خود داری کی علامت سمجھتے ہیں :
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دار و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّہٰی
ہم بحیثیت قوم اس شعر پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے پاس وسائلِ رزق ہیں لیکن ہم علمی ، ذہنی اور روحانی طور پر اس قدر گئے گذرے ہیں کہ اپنے لئے رزق پیدا کرنے کے اہل نہیں۔ پرندے بھی علی الصبح اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور سارا دن تلاشِ رزق کے لئے تگ و دو کرتے ہیں ، اپنا پیٹ بھر کر اور بچوں کے لیے سامانِ شکم لے کر چہچہاتے ہوئے شام کو اپنے گھونسلوں کی طرف پلٹتے ہیں لیکن صد افسوس ہے کہ حضرت انسان جو طائر لاہوتی ( جسمانی و عقلی لحاظ سے برتر ) ہے وہ اپنا رزق پیدا نہیں کر سکتا۔ ہم ایسے لاہوتی طیور ہیں جو زندہ بھی رہنا چاہتے ہیں اور بلند پرواز کی تمنا بھی رکھتے ہیں لیکن بے عمل اور مردہ دل ہیں جو غیروں کے سہارے پر قائم ہیں۔ پاکستان کی زمین چینی ، کپاس ، گندم ، چاول ، مکئی اور دیگر اجناس کے لئے بہت موزوں ہے۔ ہمارے زرعی سائنس دانوں کی نالائقی ، کسانوں کی بے عملی ، حکومتوں کی غلط پالیسیاں ہیں کہ ہم اپنی خوراک کیلئے بھی دوسرے ممالک کے محتاج ہیں۔ ہماری متمول اور ایلیٹ کلاس کا مسرفانہ طرزِ زندگی اور حکومتوں کے بے دریغ اخراجات ہماری معاشری بدحالی کا ایک سبب ہے۔ اس پر مستزاد تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ، متعدی مرض کی طرح پھیلتی ہوئی کرپشن ، بلیک مارکیٹنگ اور بد دیانتی پر مبنی تجارت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ پاکستان کی معیشت اِس قدر گر گئی ہے کہ ہم اپنا نظام چلانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے گدائی کر رہے ہیں۔ کیا ایک غیور اور خود دار قوم کی یہی نشانی ہوتی ہے ؟ اقبال کی روح تڑپ رہی ہوگی کہ میں نے خود داری اور خود کفالت کا درس دیا تھا اور میری قوم خودی کو بیچ کر بھکاری بن گئی ہے۔ نوجوانوں کیلئے اقبال کا ابدی پیغام یہی ہے کہ اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کرو اور کفایت شعار رہو۔ معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی دھن میں غیروں کے رزق پر انحصار نہ کرو۔
از سوال افلاس گردد خوار تر
از گدائی گریہ گر نادار تر
” سوال کرنے سے خودی کے اجزا بکھر جاتے ہیں اور خودی کا نخلِ سینا تجلی سے محروم ہو جاتا ہے۔ سوال سے مفلسی اور ذلیل ہو جاتی ہے ، گدائی سے گداگر اور نادار ہو جاتا ہے “۔
ہمارے نوجوانوں کی کثیر تعداد بے روزگار ہے ان کو ہم آگے بڑھنے کی ایک سمت نہیں دکھا سکے جس پر وہ خود اعتمادی سے گامزن ہو سکیں ، وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ انٹرنیٹ کے من پسند پروگراموں کو اپنی راتیں نذر کرنے والے اور کچھ دوپہر کو اور کچھ بعد از دوپہر جاگنے والے، علامہ اقبال کے ان اشعار کو کیسے سمجھیں گے ، کیسے قبول کریں گے اور کب عمل کریں گے :
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھ±لتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی
اگرچہ کچھ مسلم ممالک معاشی طور پر خوشحال ہیں لیکن مجموعی لحاظ سے عالم اسلام کی ملّی خودی مستحکم نہیں ہے۔مسلم ممالک کے مابین کامل اتحاد و یگانگت نہ ہونے کی وجہ سے کئی مسلم ممالک کے اندرونی معاملات میں بیرونی طاقتیں مداخلت کرتی ہیں۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ غزہ میں معصوم بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور جوانوں کا قتل عام جاری ہے۔ ہسپتالوں پر بھی بم گرائے جا رہے ہیں۔ عہد حاضر کی انسانی سفاکیوں کے علاوہ مجموعی لحاظ سے بھی عالم گیر سطح پر کوئی اچھا منظر نہیں ہے۔ بڑی طاقتوں میں آویزش اور چھوٹے ممالک میں اپنے مخصوص مفادات کے لئے ان کی کوششیں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں۔آج جب قوموں میں محبت و مودت کی بجائے منافرت بڑھ رہی ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کا اسیر بن چکا ہے۔ یورپ کی پچھلی دو عظیم جنگوں سے تاریخ پہلے ہی لرزاں ایسے میں اقبال کا پیغام ایک امیدہے۔
گذشتہ تیس سال کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ دنیا میں قتل و غارت ، فساد، جرائم اور لوٹ مار بڑھ رہی ہے۔ ظھر الفساد فی البر والبحر (القرآن) بحرو بر میں فساد غالب آگیا ہے۔ اقبال کے زمانے میں استعمار اپنے عروج پر تھا۔ پہلی جنگ عظیم کی ہولناکیاں اقبال نے بچشم خود دیکھی تھیں۔ غلام اور محکوم قوموں کے ساتھ نا انصافی اور ان کے معاشی استحصال پر اقبال نے کئی نظمیں لکھیں تھیں۔ اگرچہ وہ طبعاً رجائیت پسند تھے لیکن وہ دیکھ رہے تھے کہ انسان خدا کا نائب کہلانے کا اہل نہیں رہا۔ وہ اس حیرت میں خالقِ کائنات سے فریاد کرتے ہیں :
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
کہوں کیا ماجرا اِس بے بصر کا
نہ خودبیں، نے خدابیں، نے جہاںبیں
یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا
اقبال نے اپنے ایک خطبے میں خودی (ایغو) کا یہ اصول بیان کیا ہے کہ ” اپنی خودی کا احترام اور دوسرے کی خودی کا احترام کرو ، اگر اِس پر عمل کیا جائے تو مقامی ، ملکی اور عالم گیر سطح پر اخوت انسانی اور احترامِ آدمیت کی بنیاد پر امن و امان قائم کیا جا سکتا ہے اور دنیا سے غربت اور جرائم کم ہو سکتے ہیں۔
علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کا نچوڑ یہی ہے کہ انسان مقصودِ کائنات اور نائبِ خدا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نیابت کے قابل ثابت کرے تاکہ کائنات کی ہر شے اس کے سامنے جھکے۔ وہ احترامِ آدمیت اور انسان دوستی کے اصولوں پر کاربند ہو اور وہ صرف خدا کے سامنے جھکے۔ وہ اس دنیا میں عدل و انصاف قائم کرے نہ صرف اپنی تقدیر بنائے بلکہ کائنات کی تقدیر بھی سنوارے۔ جب وہ نیابت کے لیے درکار اہلیت اور کارکردگی ثابت کر دے گا تو پھر اس کی خودی اتنی بلند ہو جائے گی کہ وہ خدا کا ترجمان بن جائے گا اور قضا و قدر اس کی رضا کی آئینہ دار ہوگی۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضاکیا ہے