علامہ محمد اقبال کی فہم و فراست اور فلسطین

 یہ بات ہم سبھی بخوبی جانتے ہیں کہ اگرچہ علامہ محمد اقبال اسرائیل کے قیام سے دس سال پہلے ہی 21 اپریل 1938ءکو بظاہر ہم سے جدا ہو گئے لیکن نہ صرف شاعر مشرق بلکہ شاعر امت مسلمہ اور عظیم مفکر اسلام اپنی پیش بینی کی صلاحیتوں اور درد امت مسلمہ کے سبب ہمیں جگانے کی بھرپور کاوشیں کر گئے اور وہ امت مسلمہ کے ہر مخلص فرد کے دل میں تا ابد زندہ و جاوید رہیں گے علامہ محمد اقبال کا اس بات پر مکمل یقین تھا کہ فلسطین اُمت مسلمہ کا ہے اور اس پر یہودیوں کا کوئی حق نہی اپنے ایک شعر میں علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ، ”ہے خاک فلسطیں پر یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق کیوں نہیں اہل عرب کا“۔ علامہ اقبال نے اپنے تدبر اور فہم و فراست سے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ مغربی دنیا مکمل طور پر یہودیوں کے کنٹرول میں ہے اسی وجہ سے مغربی طاقتیں ہر صورت یہودیوں کی خواہشات پورا کرنے کے لئے مسلمانوں کے عین قلب میں اسرائیل نام کا خنجر گھونپنے کے لئے بے چین ہیں اسی لئے تو علامہ اقبال نے فرمایا تھا ' ” تیری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے“ اسی لئے علامہ اقبال نے بہت پہلے 30 دسمبر 1919ءکو لاہور کے مشہور موچی گیٹ کے باہر ایک ریلی سے ایک مضبوط قرارداد منظور کروائی اور برطانوی گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا کہ برطانوی گورنمنٹ مشرق وسطی کے حصے بخرے نہ کرنے کے ہندوستانی مسلمانوں سے کئے گئے اپنے وعدوں پر قائم رہے۔ علامہ اقبال نے ترکوں سے بھی یہ مطالبہ کیا کہ وہ یہودیوں کو بے جا رعایتیں اور سہولتیں نہ دیں کیونکہ بقول علامہ اقبال جب ترکوں نے رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقام براق کے سامنے یہودیوں کو عبادت کی اجازت دی تو یہودیوں نے اس مقام کے استعمال اور کنٹرول کے دعوے شروع کر دیئے۔ علامہ اقبال کے مطابق نہ تو تاریخی اعتبار سے اور نہ ہی قانونی اعتبار سے اس مقام پر یہودیوں کا کوئی حق ہے اور شریعت اسلامی کی رو سے مسجد اقصیٰ کی تمام جگہ وقف ہے۔ علامہ محمد اقبال بھانپ چکے تھے کہ اگر امت مسلمہ بیدار نہ ہوئی تو مغربی غیر مسلم طاقتیں اسرائیل جیسا ناسور ہمارے قلب میں پیوست کر دیں گی اسی وجہ سے علامہ محمد اقبال دوسری گول میز کانفرنس سے موتمر عالم اسلامی کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لئے مفتی امین ال حسینی کی دعوت پر یروشلم گئے اور وہاں اس کانفرنس میں یہودی خطرے کے حوالے سے بھرپور نقطہ نظر پیش کیا اور تمام شرکا سے درخواست کی کہ وہ اپنا پورا زور اس بات پر لگائیں کہ یہاں فلسطین کے اندر یہودی ریاست نہ بن سکے۔ علامہ اقبال اپنی پوری زندگی فلسطین کے حوالے سے مضطرب رہے اور انہوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ کسی بھی طرع امت مسلمہ کو اس فتنہ پروری سے بچایا جا سکے اسی سلسلہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے نام 7 اکتوبر 1937ءکو اپنے تاریخی خط میں آپ نے فرمایا کہ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم لیگ ایک کانفرنس منعقد کر کے عوام کی کثیر تعداد کی موجودگی میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایک مضبوط قرارداد پاس کرے گی۔ قارئین گرامی آج دنیا سمٹ گئی ہے اور ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ اسرائیل پورے فلسطینی مسلمان بھائیوں پر مظالم کی انتہا کئے ہوئے ہے۔ نہ وہ بزرگوں کی پرواہ کر رہا ہے ، نہ بچوں کی ، نہ خواتین کی اور نہ ہی ہسپتالوں کی تو ہمیں علامہ اقبال کی تعلیمات کی روشنی میں پھر سے اپنے کردار کو متعین بھی کرنا ہے اور ادا بھی کرنا ہے پہلے تو پنجہ یہود میں فرنگ کی جان والی علامہ اقبال کی بات سے ہمیں یہ پوری طرع سمجھ لینا چاہئے کہ مغربی غیر مسلم طاقتیں چونکہ مکمل طور پر یہود کے کنٹرول میں ہیں اس لئے ان سے کسی مثبت کردار کی توقع ہمیں بالکل بھی نہیں رکھنا چاہئے۔ اور دوسرا علامہ اقبال کے اس شعر سے ہمیں پھر سے سبق لینا ہے ،” کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“۔ علامہ محمد اقبال کی تعلیمات ہمارے تصورات کو واضح کر سکتی ہیں اور ایک دفعہ ہمارے تصورات واضح ہو گئے اور ہم نے علامہ اقبال کی بتائی گئی درست سمت میں اقدامات اٹھا لئے تو پھر نہ صرف ہم غزہ کی مظلوم مسلم امہ کو نجات دلا سکیں گے بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ سے حاصل کر پائیں گے علامہ محمد اقبال تا ابد ہر حریت پسند کے دل میں چنگاریوں کی طرع موجزن رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن