معزز قارئین! آج 9 نومبرہے اور اہلِ پاکستان اور بیرون پاکستان ، فرزندانِ و دختران پاکستان ” عاشق رسولﷺ، مولائی ، مصّور پاکستان“ علاّمہ محمد اقبال کا 146 واں یوم ولادت منا رہے ہیں۔ مختلف مقامات پر ، شاعرِ مشرق کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کا اہتمام اورآپ ﷺکے افکار و نظریات کی روشنی میں خصوصی تقاریب اور "Seminars"کا بندوبست کِیا جا رہا ہے۔ عالمِ فانی سے کوچ کے بعد عالمِ جاودانی میں جابسنے والوں کیلئے خود علاّمہ اقبال نے فرمایا تھا کہ …
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ، اِس ظلمات میں!
جِس طرح تارے چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں!
1909ءمیں علاّمہ صاحب نے ”حضورِ رسالت مابﷺ“ کے عنوان سے اپنی نظم میں رحمت اللعالمِینﷺ کی خدمت میں عرض کِیا کہ …
حضورﷺدہر میں، آسودگی نہیں مِلتی!
تلاش جِس کی ہے، وہ زندگی ، نہیں ملتی!
ہزاروں لالہ و گل ہیں، ریاضِ ہستی میں!
وفا کی جِس میں، ہو بو، وہ کلی نہیں مِلتی!
1913ءمیں علاّمہ صاحب نے اپنی نظم ” جوابِ شکوہ“ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے (مسلمان) کو یہ پیغام دِیا کہ …
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ، ہم تیرے ہیں!
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں!
نظم ” جوابِ شکوہ“ میں ہر مسلمان حکمران کیلئے پیغام تھا کہ …
قوتِ عشق سے ، ہر پست کو بالا کردے!
دہر میں عشق محمدﷺ سے، اجالا کردے!
اپنے اِس شعر میں علاّمہ صاحب نے ہر مسلمان حکمران کو بتایا تھا کہ ” اسمِ محمدﷺ ہی انقلاب کا اسم اعظم ہے“۔ 1930ءمیں علامہ صاحب نے اپنے خطبہ الہ آباد میں کہا کہ ” برصغیر میں مسلمانوں کیلئے ایک جداگانہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ اسلام کیلئے بھی انتہائی فائدہ بخش ہے۔ ہندوستان کیلئے یوں کہ اندرونی توازن اقتدار کے باعث تحفظ امن پیدا ہوگا اور اسلام کیلئے یوں اسے موقع ملے کہ وہ عرب ملوکیت سے نجات پائے اور اپنے قانون، تعلیم و ثقافت کو تحریک دے کر انہیں اپنی روح سے قریب لے آئے اور روحِ عصر سے ہم آہنگ کردے!“۔
28 مئی 1937ءکو علاّمہ اقبال نے قائداعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ” مَیں یہ جان کر خوش ہوا ہوں کہ آپ ان باتوں کو پیش نظررکھیں گے جو مَیں نے آپ کو ” آل انڈیا مسلم لیگ“ کے آئین و پروگرام کے بارے لکھی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حالات کی سنگینی سے پوری طرح واقف ہیں ، جہاں ان کی زدIndia" "Muslim پر پڑتی ہے۔ مسلم لیگ کو بالآخر اِس امر کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا وہ ہندوستانی مسلمان کے محض اوپر کے طبقوں کی نمائندہ جماعت ہے؟ یا ابھی تک معقول وجوہ کی بِنا پر اِس میں دلچسپی نہیں لی؟۔ ذاتی طور پر میرا ایمان ہے کہ کوئی ایسی تنظیم مسلمانوں کی قسمت کو بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی جو ہمارے عوام کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی ؟ ‘ ‘۔
علاّمہ اقبال جب، وکالت کرتے تھے تو، اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کیمطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوست / شاگرد وکلاءمیں تقسیم کردیتے تھے۔ معزز قارئین ! ” ریاستِ مدینہ“ میں پیغمبر انقلاب نے یہودیوں کے ساتھ ”میثاق مدینہ“ کرنے سے پہلے انصارِ مدینہ اور مہاجرین مکّہ مواخات ( بھائی چارا) قائم کردِیا تھا، پھر انصارِ مدینہ نے اپنی آدھی جائیداد مہاجرین مکّہ میں تقسیم کرادِی تھی۔8 ہجری میں جنگ تبوک کے موقع پر حضرت عمر بن الخطاب نے اپنے سارے مال و اسباب میں سے نصف حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی خدمت میں پیش کردِیا تھا لیکن ، حضرت ابو بکر صدیق سارے کا سارا۔ علاّمہ اقبال نے اپنی نظم صدیق میں حضرت عمر بن الخطاب کی طرف سے کہا کہ …
کی عرض نصف مال ہے ، فرزندو زَن کا حق!
باقی جو ہے وہ مِلّت بیضا پہ ہے نثار!
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق سے پوچھا کہ ” آپ کیا لائے ؟“۔آپ نے کہا کہ …
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس!
صدیق کے لئے ہے، خدا کا رسول ﷺ بس!
تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ ” باب العلم ،حضرت علی مرتضیٰﷺ مسجد نبویﷺ میں فرشِ زمین پر سو رہے تھے ، آپﷺ کا جسم خاکِ مسجد میں آلودہ ہو گیا تھا کہ ” رسالت مآبﷺ تشریف لائے اور فرمایا!۔ ”قم یا ابو تراب!“۔ (یعنی۔اے مٹی میں بھرے ہوئے جسم والے اب اٹھ بیٹھ!)۔ علاّمہ اقبال نے ابو تراب کی نسبت سے اپنے بارے کہا کہ…
یہ گنہگار ، بو ترابی ہے!
قرآنِ پاک کی ایک آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سرورِ کائنات سے کہا کہ ” لوگ آپﷺ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ ) کِس قدر خرچ کریں؟ تو آپ ﷺانہیں بتا دیں کہ ،جتنا تمہارے خرچ سے بچ بجائے، وہ سب کا سب ! “۔ اِس موضوع پر علاّمہ اقبال نے کہا کہ …
قرآن میں ، ہو غوطہ زَن، اے مردِ مسلماں!اللہ کرے، تجھ
کو عطا، جدّتِ کردار!
جو حرفِ قل العَفو، میں پوشیدہ ہے ،اب تک!
اِس دَور میں، شاید وہ حقیقت ہو نمودار!
اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبال نے اپنے مطالعے اور تجربے کی روشنی میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ …
خِیرہ نہ کرسکا مجھے، جلوہ دانشِ فرنگ!
سرمہ ہے میری آنکھ کا ، خاکِ مدینہ و نجف!
یعنی۔” یورپ کے علم و حکمت کا جلوہ میری نگاہوں کو چکا چوند نہیں کر سکا، اِس لئے کہ میری آنکھوں میں مدینہ منّور ہ اور نجفِ اشرف کی خاک کا سرمہ لگا ہوا ہے !“۔ یعنی۔ ”مَیں نے اِس طریق سے فیض حاصل کِیا جو، رسول اکرم ﷺاِس دنبا میں لائے اور جِس کے فیضان کا ایک کرشمہ حضرت علیؓ تھے “۔ نجف۔ عراق کا ایک شہر ،جہاں حضرت علی مرتضیٰ ؓکا روضہ مبارک ہے۔ علاّمہ اقبال نے کہا کہ …
نجف ، میرا مدینہ ہے ، مدینہ ہے میرا کعبہ!
مَیں بندہ اور کا ہوں، امّتِ شاہ ولایت ہوں!
معزز قارئین! اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبال نے کہا کہ
بغضِ اصحابِ ثلاثہ، نہیں اقبال کو!
دِق مگر اِک خارجی کے مولائی ہوا!
معزز قارئین! آج مَیں مصّور پاکستان کے 146 ویں یوم ولادت پر مولا ئی علاّمہ اقبال کا نجف ، مدینہ اور کعبہ کے عنوان سے آپ کی خدمت میں اپنا کالم پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔” گر قبول افتد، زہے عز و شَرف“۔
٭....٭....٭
مولائی علامہ اقبال کا نجف‘ مدینہ اور کعبہ
Nov 09, 2023