آج 9 نومبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں شاعر ِمشرق، مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کا 146واں یومِ ولادت عقیدت و احترام سے اس فضا میں منایا جا رہا ہے کہ سلطانءجمہور کے لیئے ان کا خواب ملک کی ادارہ جاتی قیادتوں کے اتفاق رائے سے شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے۔ ملک میں عام انتخابات کے لیئے غیر یقینی کی فضا چھٹ چکی ہے۔ آئندہ سال 8 فروری کو انتخابات کا انعقاد پتھر پر لکیر بن چکا ہے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس تاریخ کے اٹل ہونے کے اعلان سے انتخابات کے انعقاد میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی چنانچہ تمام سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے منشور کے ساتھ انتخابی میدان میں اتر چکی ہیں جنہیں الیکشن کمیسن کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا بھی اہتمام کر دیا گیا ہے چنانچہ منتخب حکومت کو جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کے مرحلے کی تکمیل اب محض اڑھائی ماہ کے فاصلے پر ہی ہے۔ اس تناظر میں آج کا یوم اقبال زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو فلسطین کی آج کی حالت زار کے تناظر میں فلسطین کے لیے علامہ اقبال کی فکر مندی کی روشنی میں مسلم امہ کی جانب سے ٹھوس لائحہ عمل طے کرنے کا متقاضی ہے۔ اہلِ پاکستان بھی آج یہ دن ملک کی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کی فکرمندی کے ساتھ منا رہے ہیں۔ اس موقع پر اسلامیانِ پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ بھارت، ایران، افغانستان، ترکی،برطانیہ، جرمنی اور دوسرے ممالک میں مقیم اقبال کے عقیدت مند بھی مختلف تقاریب کے ذریعے انہیں ہدیہ عقیدت و محبت پیش کرینگے اور مسلم ا±مہ کے اتحاد و یگانگت کیلئے اقبال کی سوچ پر عمل پیرا ہونے کے عزم کا اعادہ کرینگے۔ عقیدت مندانِ اقبال آج لاہور میں مزارِ اقبال پر حاضری دیکر انکی روح کو ایصالِ ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کرینگے اور ملک کی ترقی و خوشحالی‘ جمہوریت کے استحکام‘ دہشت گردی کے ناسور سے مکمل نجات اور کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے خصوصی دعائیں مانگیں گے۔ علامہ اقبال کے یومِ ولادت پر آج مزارِ اقبال پر گارڈ کی تبدیلی کی پ±روقار تقریب بھی منعقد ہو گی جبکہ سرکاری اور نجی سطح پر یومِ اقبال کی خصوصی تقاریب منعقد ہوں گی۔ حکومت کی جانب سے ملک بھر میں یوم اقبال کو سرکاری تعطیل کے فیصلہ سے اقبال جیسے قومی مشاہیر کی عزت و توقیر کی پاسداری کا ٹھوس پیغام ملا ہے۔ معمارِ نوائے وقت مرحوم مجید نظامی مرکزیہ مجلس اقبال اور دوسرے فورمز پر منعقد ہونیوالی یوم اقبال کی تقاریب کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ آج یوم اقبال کے موقع ان کی کمی شدت سے محسوس کی جائیگی۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال برصغیر کی ان جلیل القدر ہستیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس ا±جاگر کیا اور الگ وطن کا تصور دیا۔ انہوں نے انگریز اور ہندو کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانانِ ہند کی کسمپرسی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ خطہ ارضی کی ضرورت محسوس کی اور صرف اس پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اپنے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کر دیا اور پھر ایک دردمند مسلم لیگی قائد کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کو جو انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے مسلمانوں کی حالتِ زار سے مایوس ہو کر مستقل طور پر لندن کوچ کر گئے تھے‘ مراسلہ بھجوا کر واپس آنے اور اسلامیانِ ہند اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کیلئے قائل کیا‘ چنانچہ قائداعظم نے ہندوستان واپس آکر حضرت علامہ کی معیت اور گائیڈ لائن میں مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ متعصب ہندو بنیئے کی اقتصادی غلامی سے بھی نجات دلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا‘ تاہم علامہ اقبال کی عمر عزیز نے وفا نہ کی اور وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار مملکت کیلئے 23 مارچ 1940ءکو منظور ہونیوالی قرارداد لاہور سے دو سال پہلے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے جن کے بعد قائداعظم نے اقبال کے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کئے گئے تصورِ پاکستان کو سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پ±رامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسلامیانِ ہند کی پرجوش معاونت سے حقیقت کے قالب میں ڈھال دیا۔ علامہ اقبال بے شک لیڈر شناس بھی تھے‘ جنہیں مکمل ادراک ہو چکا تھا کہ محمد علی جناح کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کی منظم تحریک سے ہی ان کیلئے الگ وطن کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جبکہ اقبال بذاتِ خود برصغیر کے مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے جو اپنی قومی اور ملی شاعری کے ذریعے بھی انکے جذبات متحرک رکھتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میسر نہ ہوتی تو ان کیلئے ایک الگ مملکت کی کبھی سوچ پیدا ہوتی نہ اسکا حصول ممکن ہوتا۔ قائداعظم خود بھی علامہ اقبال کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف تھے‘ جنہوں نے انکے انتقال پر تعزیتی بیان میں اعتراف کیا کہ ان کیلئے اقبال ایک رہنماءبھی تھے‘ دوست بھی اور فلسفی بھی تھے‘ جو کسی ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے عزم میں متزلزل نہ ہوئے اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو اپنی بے لوث‘ بے پایاں اور اتحادِ ملّی کے جذبے سے معمور جدوجہد کے نتیجہ میں اسلامیانِ برصغیر کیلئے ایک الگ ارضِ وطن کا خواب حقیقت بنا دیا مگر بدقسمتی سے انکی جانشینی کے دعوے دار سیاسی قائدین سے نہ آزاد و خودمختار ملک اور مملکت کو سنبھالا جا سکا اور نہ ان سے اتحاد و ملت کی کوئی تدبیر بن پائی جبکہ مسلم لیگ کے جن قائدین کو ملک خداداد کی ترقی و استحکام کی ضمانت بننا چاہیے تھا‘ انکی عاقبت نااندیشیوں سے آزاد اور خود مختار مملکت میں بھی مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر نہ ہو پائی اور نہ ہی اسلام کی نشاة ثانیہ کے حوالے سے وہ مقاصد پورے ہوئے جن کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کے الگ خطہ کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ مفاد پرست سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ کر قائد کے وضع کردہ اصولوں اور انکے مشن سے ہٹ گئی جبکہ اقتدار کی کشمکش نے اس پارٹی کو مختلف حصوں اور گروپوں میں تقسیم کر دیا اور یہ گروپ اقتدار کی راہداریوں میں مٹرگشت کرتے کبھی ماورائے آئین اقدام والوں کو اپنے کندھے فراہم کرتے رہے‘ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کی تکمیل میں معاون بنتے رہے، کبھی سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں کے ہاتھوں جمہوریت کا مردہ خراب کراتے رہے اور کبھی چور دروازے سے اپنے اقتدار کے راستے ہموار کرتے نظر آتے رہے۔ بے شک مختلف لیگی گروپوں کو اقتدار میں آنے کے مواقع ملتے رہے ہیں مگر خالص مسلم لیگ کی حکمرانی کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو پایا۔ میاں نوازشریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو زیادہ عرصہ تک اقتدار میں رہنے کا موقع ملا اور انکے متوالے انہیں ”قائداعظم ثانی“ بھی قرار دیتے رہے تاہم اقتصادی طور پر مستحکم اور نظریاتی طور پر روشن و مضبوط پاکستان کا بانی پاکستان کا خواب انکے ادوار میں بھی ادھورا ہی رہا۔ مسلم لیگ کا یہی گروپ میاں شہبازشریف کی زیرقیادت مخلوط حکومت میں بھی شامل رہا مگر اس مملکت خداداد کے باسیوں کی اقتصادی غلامی اور غربت و افلاس کا وہی عالم ہے جس سے برصغیر کے مسلمانوں کو خلاصی دلانے کیلئے اقبال کے تصور پاکستان کو قائداعظم نے عملی قالب میں ڈھالا تھا۔ اتحادیوں کی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کے تسلسل میں نگران حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی خوشنودی کی خاطر وہی اقتصادی، مالی پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں جس کے نتیجہ میں عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ ان کے لیئے آبرو مندی کے ساتھ زندہ رہنا محال ہے جبکہ ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے لاتعلق نظر آتی ہے، اس سے اقبال و قائد کا تصورِ پاکستان بھی گہنایا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہم آج کا یوم اقبال ان حالات میں منا رہے ہیں کہ ملک میں عملاً اقتصادی عدم استحکام کی فضا طاری ہے۔ آج بانیانِ پاکستان اقبال و قائد حیات ہوتے تو مفاد پرست سیاست دانوں کے ہاتھوں ملک اور سسٹم کی درگت بنتے دیکھ کر انتہائی دل گرفتہ ہوتے۔
بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو اس ملک خداداد کیلئے اتحاد‘ ایمان‘ یقین محکم کی بنیاد فراہم کی تھی مگر آج ملک کی سلامتی کے حوالے سے دشمن کے درپیش چیلنجوں کے باوجود ہم قومی اتحاد و یکجہتی کی منزل سے دور ہٹتے نظر آتے ہیں اور غربت‘ مہنگائی کے ہاتھوں راندہ¿ درگاہ بنے عوام اس ارضِ وطن کیلئے اقبال و قائد جیسی میسحائی کے منتظر ہیں۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ نگران وفاقی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور میں منسوخ کی گئی یومِ اقبال کی سرکاری تعطیل بحال کر دی ہے جو قومی مشاہیر میں شامل علامہ اقبال کی ملی اور قومی خدمات کا اعتراف ہے۔ یومِ اقبال کی سرکاری تعطیل منسوخ کرنے کا مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور کا عاجلانہ فیصلہ عوامی احتجاج کو درخوراعتناءنہ سمجھتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت نے بھی برقرار رکھا تھا۔ اتحادیوں کی حکومت نے گذشتہ سال یہ سرکاری تعطیل بحال کرکے قومی جذبات کی ترجمانی کی اور اب نگران حکومت نے بھی یوم اقبال پر ملک بھر میں سرکاری تعطیل کا اعلان کیا ہے۔ بے شک قوم کو کسی کاز کے ساتھ منسلک کرکے ہی قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا مستحکم بنائی جا سکتی ہے مگر اسکے بجائے عوام کو انتہاءدرجے کی مہنگائی اور غربت و بے روزگاری کے مسائل میں الجھا کر انہیں ملک کا افراتفری والا نقشہ دکھانا ہرگز مناسب نہیں۔ ملک میں ایسی ہی صورتحال کا ہمارا دشمن منتظر ہوتا ہے جو ہماری سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پایہ تکمیل کو پہنچانے کیلئے ہمہ وقت سرگرداں ہے جیسا کہ اس وقت ملک میں بڑھتی دہشت گردی کے ذریعے محفوظ پاکستان کا تشخص خراب کرنے کی گھناو¿نی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اس تناظر میں آج کا یوم اقبال سرکاری اور نجی سطح پر اس جذبے کے ساتھ منانے کی ضرورت ہے کہ دشمن کو اسکے عزائم کے مقابل قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام جائے۔ ہماری قومی سیاسی قیادتوں کیلئے خطے کی موجودہ صورتحال تو لمحہ فکریہ ہونی چاہیے اس لیئے آج قومی سیاسی عسکری قیادتوں کی جانب سے اس کے دشمنوں اور بدخواہوں کو مضبوط اور پرامن پاکستان کا ٹھوس پیغام جانا چاہیئے۔