علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد آزادی کی جانب پیش رفت کا پہلا قدم

Nov 09, 2024

حکیم راحت نسیم سوہدروی

حکیم راحت نسیم سوہدروی

حکیم الامت علامہ اقبال اسلامیان برصغیر کے وہ عظیم رہنما ہیں،جنہوں نے نہ صرف فکری رہنمائی کی، بلکہ اسلامیان برصغیر کے لئے ایک الگ وطن کی نشاندہی کی تاکہ وہ اِس خطہ ارض میں اپنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دے سکیں اور دنیائے اسلام کی رہنمائی ہو۔ علامہ اقبال نے مسلمانانِ برصغیر پاک و ہند کے لئے نہ صرف الگ وطن کا تصور پیش کیا، بلکہ اس عظیم قائد کی بھی نشاندہی کر دی، جو اِس مقصد ِ عظیم کے حصول کے لئے جملہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے مالا مال تھا۔ ملت نے علامہ اقبال کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر حضرت قائداعظم کی قیادت میں اِس تصور کو عملی جامہ پہنایا اور اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم ہوئی۔
علامہ اقبال نے1926ءمیں عملی سیاست میں قدم رکھا اور اپنے افکار ونظریات کی تبلیغ شروع کی۔ وہ مسلمانوں کے لئے انتہائی پرآشوب تھا اور جذبات کا ایک تلاطلم برپا تھا۔ علامہ کی علمی شہرت مشرق سے مغرب تک پہنچ چکی تھی اور ان کی فلسفیانہ شاعری کا ڈنکا چار سو بج رہا تھا۔ اِس لئے ان کی آواز کو سنا گیا کہ برصغیر کے اندر مہاسبھائی ذہنیت کے سبب مسلمانوں کی ترقی کا کوئی راستہ نہیںہے اور وہ بے چارگی و مجبوری کے عالم میں ہندوﺅں اور انگریزوں کی کاسہ لیسی کے لئے مجبور ہوں گے تاکہ روح و تن کا رشتہ باقی رکھنے میں آسانی رہے۔ انگریز کا تصورِ جمہوریت ہندو اکثریت کو ساتھ ملا کر عددی اکثریت سے مسلمانوں کو مطمئن کر کے ہمیشہ کے لئے مجبور و محکوم بنانا ہے۔ بقول اقبال اِس تصورِ حکومت میں بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیںکرتے۔بلا شبہ یہ تصور اس ملک میں مفید ثابت ہو سکتا ہے، جہاں ایک ہی عقیدہ و ملک کے لوگ اور قوم آباد ہوں، مگر ایسا ملک جہاں مختلف اقوام آباد ہوں یہ تصور اکثریت کو اقلیت پر حکمرانی کا کھلا موقع دیتا ہے۔ مسلمان قوم ایک طرف فرنگی حکمرانوں کی دشمن تھی کہ انہوں نے ان سے اقتدار چھینا تھا۔ دوسری طرف ہندو اکثریت سے خوفزدہ تھی۔ مسلمان چونکہ فرنگی حکمرانوں کو نکالنا چاہتے تھے اِس لئے ہندو اکثریتی قوم سے مل کر جدوجہد کے خواں تھے، مگر انہیں جس قوم سے واسطہ پڑا کہ مسلمان کی اس دیش میں ہستی نہ رہے۔ یہ تھے وہ حالات جن میں علامہ اقبال نے بیداری ملت کا کام شروع کیا۔ سر سید احمد خان کی علمی تحریک علی گڑھ کے اثرات بھی سامنے آ رہے تھے۔ تحریک خلافت و عدم تعاون نے سیاسی شعور کو جو جِلا بخشی تھی، مگر خالصتاً مسلمانوںکی مرکزی تنظیم فعال نہ تھی اور گروہوں میں تقسیم تھی۔ کانگریس کے متحدہ قومیت کے عنصریت نے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، جن پر اسلام کی سربلندی اور اہل ِ اسلام کی دینی و دنیاوی فلاح کا فرض تھا وہ محض رسوم اور شعائر کی حفاظت کو ہی اپنی ذمہ داری خیال کرتے جیسا کہ علامہ اقبال? نے فرمایا:
ملا کو ہے جو ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے اسلام ہے آزاد
کانگریس کی مہا سبھائی ذہنیت کوشاں تھی کہ ہر دو اقوام مل کر انگریز کو نکالیں۔ پھر دونوں اقوام اکٹھی رہیں یوں ہندو اکثریت مسلمان اقلیت پر اپنا اقتدار قائم رکھے گی۔اگرچہ سر سید احمد خان نے اپنی تحریک کے آغاز میں ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ اقوام ہیں، جو اکٹھی نہیں رہ سکیں۔ سر سید احمد خان نے کہا تھا:” اگر آج انگریز ملک چھوڑ کر چلے گئے تو مسلمانوں کا کیا بنے گا؟“ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور معاشی حالت بہتر بنائی۔ علامہ اقبال بھی ان اکابر میں تھے، جو پہلے متحدہ جدوجہد کے قائل تھے اور ان کا یہ ترانہ زبانِ زد و خاص و عام تھا۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
حالات و واقعات نے جلد ہی ان پرہندو ذہنیت واضح کر دی اور وہ ہندو مسلم اتحاد کو ناممکن قرار دینے لگے۔کانگریس کے متحدہ قومیت کے مقابل مسلم قومیت کا تصور پیش کر کے الگ مملکت چاہنے لگے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو الگ قوم کا تصور عام کیا اور کہا:
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
 علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ ہم محض مذہب کی بنا پر الگ قوم کا دعویٰ نہیں کرتے، بلکہ ہمارا موقف ہے کہ اسلام جاندار اور آفاقی مذہب ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت اور اسلام پر یقین رکھنے کی والی دوسری قوم ہیں۔ یہاں تک مسلمانوںکے ہاں جو چیز حلال خوراک ہے وہ ہندو?ں کے ہاں مقدس اور ناقابل ِ تقسیم گا ماتا ہے۔ دونوں کے تہذیب و تمدن الگ الگ ہیں۔ اِس پیغام کو عام کرنے کے لئے انہوں نے نہ صرف اشعار ہی کہے، بلکہ ہندوستان کے طول و عرض میں بھی گئے۔ خطبات دیئے، خط لکھے اور لیگ کی تنظیم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ دو قومی نظریہ اور مسلم لیگ میں شمولیت بارے وہ قائداعظم سے سینئر ،مگر دونوں بیرسٹر تھے۔ مغرب سے تعلیم یافتہ، مگر دونوں کے سیاسی اختلافات تھے۔ 1927ءمیں دہلی میں مسلم رہنماﺅں کے اجلاس میں جو تجاویز منظور کی گئیں۔ قائداعظم ان کے حق میں، جبکہ علامہ اقبال حق میں نہ تھے۔ پھر سائمن کمیشن آیا تو قائداعظم ان کے سخت مخالف، جبکہ علامہ اقبال حق میں۔1928ئمیں نہرو رپورٹ آئی تو قائداعظم ترمیمات کے ساتھ حق میں، جبکہ علامہ اقبال مکمل رد کرنے کے حق میں تھے۔ پھر وقت آ گیا کہ قائداعظم نے ان کا نقطہ نظر تسلیم کر لیا اور معروفِ عالم چودہ نکات پیش کئے۔ اب دونوں کے سیاسی مسلک ایک ہو گئے اور مسلمانوں کو ایک کرنے کی کوشش کا آغاز ہو گیا۔ پھر حالات کے ہاتھوں بددل ہوکہ قائداعظم لندن چلے گئے تاہم علامہ اقبال ان کو واپس لانے کے لئے گہری سوچ بچار کرتے رہے۔ اِسی اثناءمیں دسمبر1930ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس الٰہ آباد میں ہوا، جس میںخطبہ ¿ صدارت دیتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا۔ برصغیر کے مسلمانوںکے سیاسی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوںکے لئے الگ مملکت قائم کر دی جائے، کیونکہ دونوںاقوام کا یکجا رہنا ناممکن ہے اور نہ ہی یکجا ہو کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔الٰہ آباد میں گنگا و جمنا کا پانی جس طرح الگ الگ نظر آتا ہے اِس طرح یہ دونوں اقوام اکٹھی رہنے کے باوجود الگ الگ ہیں۔ مزید فرمایا ہندوستان کے مسئلے کا حل علیحدہ قومیت کا وجود ناگزیر ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کی اکائیاں یورپی ممالک کی طرح علاقائی نہیں۔ یہ خطہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی مختلف نسلوں پر مشتمل انسانی گروہوں کا ہے۔ الگ الگ قومیتی گروہوں کو تسلیم کئے بغیر پورے جمہوری اصول کا اطلاق ہندوستان پر نہیں ہو سکتا، اِس لئے مسلمانوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہندوستان کے اندر مسلم انڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے۔ مزید فرمایا:
”مَیں پنجاب، سرحدی صوبہ، سندھ، بلوچستان کو ضم کر کے ایک الگ مملکت کی صورت دیکھنا چاہتا ہوں۔ مذکورہ ریاست مسلمانوں کی آخری منزل ہے“۔
ہندوستان کے بعض متعصب لوگوں کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
”ہندوﺅں کو یہ تشویش نہیں ہونی چاہئے کہ ایسی خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں تو ان میں مذہبی قسم کی حکومت چلائی جائے گی۔ مَیں پہلے بھی اشارہ دے چکا ہوں کہ مذہب کا لفظ اسلام پر بولا جائے تو اس کے کیا معانی ہو سکتے ہیں“ کے 
آگے چل کر فرمایا:”غرض ہندوﺅں اور مسلمانوں کے بہترین مفاد میں متحدہ اسلامی مملکت کا مطالبہ کرتا ہوں“ مزید فرمایا:
”کہ قرآن کی زبان میں اپنے آپ کو مضبوطی سے تھامے رہو، کوئی غلط کار تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا، بشرطیکہ تمہاری قیادت بہترین ہو وہ آزادی کی جنگ بہتر لڑ سکتی ہو، جس کا پاس سپہ سالار بہتر ہو“۔
اِس واضح نصب العین کے بعد وہ منزل کی جانب روانہ ہو گئے اور ان کی نظر بہتر قیادت کے لئے قائداعظم پر جا ٹھہری۔ان سے خط و کتابت کر کے ان کو الگ مسلم قومیت کا نکتہ نظر پیش کیا۔ مئی1936ءمیں اقبال دوبارہ صدر آل انڈیا مسلم لیگ منتخب ہوئے۔اِس دوران انہوں نے قائداعظم کو مسلمانان برصغیر کی قیادت کے لئے آمادہ کر لیا۔ اپنے ایک خط میں جو21جون1937ءکو قائداعظم کے نام لکھتے ہیں۔
مائی ڈیئر جناح!
”آپ کے اِس خط کے لئے بہت بہت شکریہ، جو مجھے کل ہی وصول ہوا۔ مَیں جانتا ہوں کہ آپ بہت ہی مصروف انسان ہیں، لیکن مَیں ساتھ ہی یہ توقع بھی رکھتا ہوں کہ آپ کو میری بار بار کی مراسلت ناگوار نہ ہو گی،کیونکہ ہندوستان میں آج آپ ہی واحد مسلمان ہیں، جن کی ذات سے مسلم جماعت اس طوفانِ بلا میں جو شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں آ رہا ہے محفوظ رہنمائی کی توقع کرنے کا حق رکھتی ہے۔
ویسے تو قائداعظم کو برصغیر کے ہزاروں مسلمانوں اور رہنماﺅں نے خطوط لکھے تھے، مگر وہ خاموش رہے،مگر علامہ اقبال کا خط ملا تو انہوں نے واپس آ کر مسلمانانِ برصغیر کی رہنمائی کا فیصلہ کر لیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر علامہ اقبال قائداعظم کو تحریک نہ دیتے تو شاید وہ واپس نہ آتے۔قائداعظم واپس تشریف لے آئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر مسلمانانِ برصغیر کو متحد و متفق کر کے مسلم قومیت کی بنا پر الگ مملکت کے لئے لیگ کی تنظیم نو اور عوامی بنانے کے لئے کام کرنے لگے۔علامہ اقبال? ان دِنوں بیمار تھے، مگر وہ اس کے باوجود قائداعظم سے بھرپور تعاون کرتے رہے۔انہوں نے بستر علالت سے فرمایا:
”اب میری صحت کی دعا بیکار ہے۔ میرے دن پورے ہو چکے ہیں آپ لوگ محمد علی جناح اور اتاترک کی زندگیوں کے لئے دعا کریں،جنہوں نے اپنا مشن مکمل کرنا ہے“۔اس کے بعد21اپریل1938ءکو علامہ اقبال نے تو دنیا سے اپنا منہ موڑ لیا، مگر اِس کے صرف ایک سال گیارہ ماہ بعد ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے23مارچ1940ءکو لاہور میں اپنے اجلاسِ عام میں الگ وطن کی قرارداد منظور کرائی۔جو تاریخ میں قرار دادِ پاکستان کے نام سے مصروف ہے۔ اب علامہ اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک آزادی کے لئے عملی جدوجہدکا آغاز ہو گیا۔ بقول مطلوب الحسن سید قائداعظم نے اِس قرارداد کی منظوری پر فرمایا:
”آج اقبال زندہ ہوتے تو کس قدر خوش ہوتے کہ آخر کار ہم نے وہ کچھ کیا، جس کا وہ ہم سے مطالبہ کر رہے تھے“۔
اِس قرارداد کی منظوری کے صرف سات سال بعد قوم نے اتحاد کی بدولت قائداعظم? کی قیادت میں دنیا کا نقشہ بدل کر مملکت ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم کر دی۔
حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے صرف فکری طور پر ہی رہنمائی نہ کی، بلکہ عملی طور پر تحریک ِ پاکستان میں حصہ لیا۔ دو قومی نظریئے کا فروغ، خوابیدہ ملت کو بیدار کرنا اور پھر واضح نصب العین،یعنی الگ مملکت کا تصور ان کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔پاکستان پر ان کے اثرات و احسانات عظیم تر ہیں۔ اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان کی تعمیر و استحکام کے لئے فکر ِ اقبال سے رہنمائی حاصل کی جائے اور مسلمانانِ ایشیاء کے اسلامی تشخص کی جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے پوری کریں۔اقبال نے جن مقاصد کے لئے یہ خواب دیکھا تھا، یعنی ماڈرن اسلامی فلاحی مملکت کے لئے کام کر کے ان کی روح کو چین بخشیں۔

مزیدخبریں