نقطئہ نظر علامہ اقبال کا نظریہ خودی اورپیغام اتحاد امت!

محبوب احمد چودھری
علامہ اقبال ایک سوچ، فکر اور ایک نظریہ خودی کا نام ہے۔آپ کا انداز تکلم اور افکار جداگانہ اور انمول ہے۔فکر اقبال تعمیر پاکستان اور استحکام پاکستان کی ضامن ہے کیونکہ تصور پاکستان سے تعمیر پاکستان تک اس سفر میں آپ کے افکار تاریکی میں روشنی اور مایوسی میں عزم و حوصلے، خودی اور خود انحصاری، خودداری اور ملی بیداری کا درس دیتے ہیں۔ خودی وہ واحد عنصر ہے جو اقبال کے کلام کا خاصہ ہے، اگرمفکر پاکستان کی شاعری کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو خودی وہ لفظ ہے جو سارے رموز کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کیونکہ یہ وہی نقطہ ہے جہاں سے کائنات وجود میں آئی۔خودی وہ امر ہے جو رب تعالیٰ نے انسانوں کو عطا کی تاکہ وہ سوچے اور غور و فکر کرکے اپنی اصل کو تلاش کرے،خود کو جاننا، پہچاننا اور اپنے وجود کے ہونے اورنہ ہونے کی اہمیت کا ادراک کرنا خودی ہے۔ فرد واحد ہونے کی حیثیت سے اپنی ذات کا ادراک اور اس میں چھپے رموز اور اپنے تخلیق کئے جانے کا مقصد جاننا خودی ہے،خودی وہ مرکزی نقطہ ہے جہاں سے حیات پھوٹتی ہے۔ عالم اسلام میں اجتماعی سوچ کے فقدان، تیزی سے بکھرتے ہوئے اسلامی تشخص اور مسلم معاشرتی زندگی میں ابھرتے ہوئے جمود اور قنوطیت نے مفکر پاکستان کواس قدر جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پرآپ کا دل جلتا اور کڑھتا۔ آپ نے شعور کی آنکھ کھولی تو سیاسیات عالم میں اسلامی دنیا بالخصوص خلافت عثمانیہ کو زوال پذیر ہوتے دیکھا۔اسلامی ریاستوں پر بڑھتے ہوئے مغربی اور اشتراکی دباﺅنے آپ کے آدرشوں پر ایک تازیانے کا کام کیا۔آپ کے دل میں یہ خواہش ہر وقت مچلتی کہ مسلمان روح کی غلامی کے جال توڑکر شکست و ریخت کے خول سے باہر نکلیںاورجہان نو میں تازہ بستیاں آباد کریں۔ حکیم الامت،شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال نے اپنی منفرد سوچ، ندرت فکر، فہم و دانش اور اسلامی تشخص پر یقین کامل کی گوناگوں خوبیوں کے ذریعے مسلمانوں کو اسلاف کے کارناموں اور لازوال اسلامی اصولوں کی سچائی کا احساس دلایا اورانہیںخواب غفلت سے جگاتے ہوئے ہندوستان میں اسلامی تشخص کی بنیاد پر ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کے لئے تیار کیا۔
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی،خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسماں و کرسی و عرش،خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
عصر حاضر کے مسائل موجودہ دور کی مشکلات کے حل اور تعمیر ملک و ملت کے لئے فکر اقبال ایک نیا عزم اور نیا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ علامہ اقبال ایک ایسی قوم کی تعبیر چاہتے تھے جہاں کلمہ حق کی تکمیل ہو، اپنے رب تعالیٰ کی پہچان ہو اور اسلام کی دی ہوئی تعلیم کا راج ہوجہاں سب ایک دین اور ایک جھنڈے تلے ایک قوم کی حیثیت سے متحد ہوںجہاں بندہ بندے کے کام آئے اور بندگی کا راج ہوجہاں مومنوں کا بسیرا ہو اور قرآن مجید ان کے سینے میں دہکتاہوجہاں انسان تو انسان ایک چیونٹی کا حق بھی نہ مارا جاتا ہو مگر مقام افسوس کہ یہ ایک محض خواب ہی رہا کیونکہ جستجو اور علم کے مراحل سے گزر ے بغیر انسان بننا اور فلسفہ خودی کو پہچاننا ممکن نہیں۔ حکیم الامت کے افکار نے مسلمانوں کو نئی فکر دی۔ انتہاءپسندی اور فرقہ واریت پر قابو پانے کیلئے علامہ اقبال کا نظریہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اقبال کا فلسفہ و سوچ سمجھنے کی ضرورت رہی۔ فلسفہ خودی حقیقت میں غلامی کی ہر شکل سے نجات کا بہترین نسخہ ہے۔ مسلمان غلامی کے اندھیروں میں جکڑے ہوئے تھے لیکن آپ کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں کو غفلت سے بیدار کیا۔تعمیر وطن اور ملک و قوم کو درپیش چینلجز کا تقاضایہی ہے کہ ملک و قوم کا ہر فرد وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کیلئے جہد مسلسل اور عمل پیہم کی راہ اپنائے۔ پاکستان میں آج سب سے بڑا مسئلہ قومی اور ملی وحدت کا فقدان ہے جس کی بڑی وجہ اتحاد و یگانگت، اخوت و اجتماعیت اور بھائی چارے کے درس کو فراموش کرنا ہے لہٰذا ضرورت اب اس امر کی ہے کہ ملک کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کر نے کیلئے نوجوان نسل کو چاہئے کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دنیا میں اپنا الگ مقام حاصل کریں جس کا خواب ہمارے اکابرین نے دیکھا تھا۔آپ نے عرصہ قبل اپنی دور اندیشی سے مسلمانوں کو درپیش مسائل کی نشاندہی کر کے اس کے سدباب کا حل بھی بتا دیا تھا لہٰذا اب سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ تمام تر توانائیاں قومی، سماجی اور اداروں کی تشکیل نو پر مرکوز کریں تاکہ وطن عزیز کومفکر پاکستان کے افکار کے مطابق ڈھالا جا سکے۔

محبوب احمد چودھری----نقطہ ٔ  نظر

ای پیپر دی نیشن