طارق شہزاد chtariqshahzad@gmail.com
آج نو نومبر ہے۔ ملک عزیز کے ساتھ پوری دنیا میں شاعر مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا یوم ولادت پرجوش طریقے سے منایا جا رہا ہے۔ عزت علامہ اقبال کی زندگی مسلمانوں کی تحریک سے وابستہ ہے۔ اپ کے کلام نے سوز و الم و پڑمڑدگی دوراں کو جھنجھوڑ کر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا۔ بانگِ دراءحکیم الامت شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ اس مجموعے کا تعارف حاصلِ تحریر ہے۔
بانگ دراءکی پہلی فصل 1924ءمیں شائع ہوئی۔ " خطاب بہ نوجوان اسلام" مجموعے کی پہلی نظم ھے ،جس میں اقبال نے مسلمان نوجوان کو براہ راست مخاطب کر کے اس سے اپنے دل کی بات کہی ھے - نظم اس شعر سے شروع ہوتی ھے :
کبھی اے نوجواں مسلم ! تدبر بھی کیا تو نے ؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ھے اک ٹوٹا ہوا تارا ؟
اقبال نوجوان سے مخاطب ہوتے اور اس پر ماضی و حال کا فرق یوں واضح کرتے ہیں :
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار ' وہ کردار ' تو ثابت ' وہ سیارہ
گنواہ دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پاءتھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی ' کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ھے سیپارہ
اقبال شناساو¿ں اور محققین نے بانگ دراءکو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا دور :
بانگِ دراءکی شاعری علامہ اقبال نے 20 سال کے عرصے میں رقم کی۔ کتاب کا پہلا دور 1905ءتک کی لکھی گئی بچوں کی نظموں، اور حب الوطنی پر مبنی ترانہ ہندی "سب سے اچھا ہندوستان ہمارا " پر مشتمل ہے۔
دوسرا دور:
دوسرا دور 1905ء تا 1908ءکہ اس دور پر محیط ہے ،جب آپ برطانیہ تشریف لے گئے تھے۔ وہاں کی علمیت اور عقلیت نے تو آپ کو بہت متاثر کیا اور آپ نے اسے سراہا۔ مگر وہاں کی مادہ پرستی اور روحانیت کی کمی پر آپ نے خوب تنقید کی۔ اس مجموعے کے دوسرے حصے نے آپ کو اسلام کی آفاقی اقدار کے قریب کر دیا۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو جگانے کے لیے اس مجموعے کے دوسرے حصے میں انقلابی شاعری کا آغاز کیا۔
تیسرا دور :
1908ءسے 1923ءتک کے درمیان لکھی گئی شاعری پر مشتمل ہے ،جس میں انہوں نے مسلمانوں کے عظیم ماضی کی انہیں یاد دلائی۔ انہوں نے مسلمانوں کو تمام سرحدوں سے بالاتر ہو کر اب سے اخوت اور بھائی چارے کا مطالبہ کیا۔ اس مجموعے کے تیسرے حصے میں نظم "طلوع اسلام" "شکوہ جواب شکوہ $بھی شامل ہیں۔ جس کو پڑھنے کے بعد جس کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو کیوں حکیم الامت اور امت کا نبض شناس کہا گیا۔
عہد حاضر میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور آشفتہ سری کے آئینہ روزگار میں اگر بانگ دراءکا اگر فکری مطالعہ کیا جائے، تو یہ کتاب امّت مسلمہ کی نیہ کو پار لگانے اور اس کی شیرازہ بندی کے لیے ایک امرت دھارا یے۔ بقول معروف اقبال شناس خلیفہ عبدالحکیم "اقبال قران کا شاعر ہے"
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
اقبال