کالم: علامہ محمد اقبال ہندوستان' کشمیر فلسطین اور پوری امت مسلمہ کے لئے نعمت خداوندی

Nov 09, 2024

رانا-ضیا-جاوید-جوئیہ  

کالم نگار: رانا ضیاءجاوید جوئیہ 
علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو پیدا ہوئے اور 21 اپریل 1938 کو صرف 60 سال '5ماہ اور 12 دن بعد خالق حقیقی سے جا ملے لیکن اتنی مختصر زندگی میں ہی علامہ محمد اقبال نہ صرف اس وقت کی پوری امت مسلمہ' آج کی امت مسلمہ بلکہ قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کے لئے ایسی فکر انگیز شاعری اور تحریریں چھوڈ گئے جو مسلمانوں کے لئے اپنا وجود عزت سے برقرار رکھنے کے لئے انتہائی مددگار ہیں۔جس وقت علامہ اقبال نے ہوش سنبھالا اس وقت امت مسلمہ ہندوستان میں ہزار سالہ حکومت کے بعد انگریز کی غلامی میں زندگی گزار رہے تھے اور خلافت عثمانیہ بھی اسی دور میں ختم ہو گئی' کشمیر پہلے ہی انگریزوں نے ڈوگرہ راج میں دے دیا تھا' وسطی ایشیائی مسلمان ریاستیں بھی روس کی مکمل غلامی میں چلی گئی تھیں مختصر دنیا بھر میں مسلمان پورے عروج کے بعد اب مکمل زوال کا شکار تھے اور اس زوال میں سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ پوری دنیا کے مسلمان اتحاد کی قوت سے محروم ہو کر اپنا سارا اعتماد کھو رہے تھے امت مسلمہ کے اس زوال والے دور میں اللہ کریم نے امت مسلمہ کو علامہ محمد اقبال جیسے مفکر اسلام عطا کئے جن کے ہر ہر شعر سے امت مسلمہ کی زبوں حالی پر درد اور اس زبوں حالی سے نکلنے کے نسخے بھی ہمیں ملتے ہیں
ایک شعر میں علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں
" حرم پاک بھی ایک قرآن بھی ایک 
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک"
ہمارے زیادہ تر لوگ علامہ محمد اقبال کو صرف ان کی شاعری کی کتابوں بانگ درا' بال جبریل'ضرب کلیم' ارمغان حجاز' زبور عجم ' اسرار خودی ' رموز بے خودی ' پیام مشرق' جاوید نامہ کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ علامہ محمد اقبال نے ایک زبردست کتاب نثر کی صورت بھی لکھی انگریزی میں ، ری کنسٹرکشن آف ریلیجئس تھاٹس ان اسلام'
علامہ محمد اقبال بلا شک و شبہہ اپنی زندگی کا ایک واضح نصب العین رکھتے تھے اور وہ مقصد حیات تھا امت مسلمہ کو اتحاد سے دوبارہ روشناس کروا کے ان کے زوال کا خاتمہ اور پھر سے عروج کا حصول اتحاد امت مسلمہ کے حوالے سے بقول علامہ محمد اقبال
"یہی مقصود فطرت ہے ' یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی"
اسی طرع ایک اور مشہور شعر میں آپ فرماتے ہیں
" ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے 
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر"
علامہ محمد اقبال بہت بڑے مفکر اسلام اور شاعر اسلام ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے پورا جہاد کرنے کا حق ادا کیا آپ کے ایک ایک شعر سے ہمیں بس ایک ہی درس ملتا ہے کہ امت مسلمہ زوال سے کیسے نکل سکتی ہے اور کیسے پھر سے بام عروج پر پہنچ سکتی ہے علامہ محمد اقبال کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر عرب کا کوئی عربی انکی شاعری پڑھے تو اسے یہ یقین پیدا ہو جائے گا کہ علامہ اقبال عربوں سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں' اگر وسط ایشیائی ریاستوں کا کوئی مسلمان اقبال کو پڑھے گا تو وہ یقین کرے گا کہ اقبال اسی علاقہ سے ہیں مختصر یہ کہ دنیا بھر کے مسلمان جہاں کہیں بھی اقبال کو پڑھیں انہیں لگتا یہی ہے کہ علامہ محمد اقبال نے جیسے سب کچھ صرف انہی کے لئے لکھا ہے علامہ محمد اقبال دراصل ہیں ہی پوری امت مسلمہ کے وہ ہندوستان تک محدود نہی بلکہ پورے عالم اسلام تک ان کی تعلیمات کی روشنی پھیلی نظر آتی ہے علامہ محمد اقبال صحیح معنوں میں ربط عالم اسلام کے لئے وقف رہے ہمیشہ بقول علامہ محمد اقبال
"اک عمر میں نہ سمجھے زمین والے
جو بات پاگئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جزب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں"
علامہ محمد اقبال وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے سب سے پہلے پاکستان کا تصور پیش کیا علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور انہیں اپنی فکر انگیز شاعری کے ذریعے یہ اعتماد دیا کہ وہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اپنے لئے الگ آزاد پاکستان حاصل کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے صرف شاعری کے ذریعے ہی نہیں بلکہ عملی جدوجہد کے ذریعے بھی زبردست تحریک پیدا کی امت مسلمہ کو اعتماد دینے کے لئے علامہ اقبال نے ایک راستہ یہ بھی بتایا
" خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے"
علامہ محمد اقبال نے خودی کو بلند کرنے کا جو درس دیا اس سے ایک بہت ہی زبردست پہلو آپ کی شخصیت کا اور نکلتا ہے اور وہ ہے عشق رسول مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مطابق خودی کے حصول کے لئے درکار 3 مراحل میں اطاعت' ضبط نفس اور نیابت الٰہی میں سے پہلا اطاعت دراصل اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے علامہ محمد اقبال کے نزدیک اسلام کی اصل صورت گری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر غیر متزلزل ایمان اور مکمل پیروی کی صورت میں ہی ممکن ہے علامہ اقبال نے عشق رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم میں وہ مقام حاصل کیا کہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمیشہ آنکھیں نمناک اور پر سوز ہو جاتیں اسی حوالے سے آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا
"چشم نم ناک اور دیدہ تر
آرزو میری یہی ہے میرا نور بصیرت عام کر دے"
علامہ اقبال نے فلسفہ وحدت عالم اسلامی پر بہت زیادہ کام کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کے لئے علامہ اقبال کا کردار ہم زیادہ ڈسکس اس لئے نہی کرتے کہ یہ تو سب کو پتہ ہے کیونکہ علامہ نے ایسی جہد مسلسل اور حیات و حرکت ہندوستان کے مسلمانوں میں پیدا کر دی کہ ہندوستان کی سوئی ہوئی مسلمان قوم کو خاک سے اٹھا کر ثریا تک پہونچا دیا علامہ محمد اقبال وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو مسلسل 3 سال کوشش کر کے نہ صرف ہندوستان واپس بلوالیا بلکہ خود سے آل انڈیا مسلم لیگ کی ساری باگ دوڑ بھی قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے کر دی اور علامہ محمد اقبال کے تحریک پاکستان میں کردار کو ڈسکس کرنے کی بجائے ہم صرف ایک فرمان قائد اعظم یہاں پر لکھ دیتے ہیں جس سے سبھی کو پتہ چل جائے گا کہ تحریک پاکستان میں آپ کا کردار کیا تھا1940 میں اقبال ڈے کے موقع پر قائد اعظم کے تاریخی الفاظ'
" اگر مجھے یہ پیشکش کی جائے کہ آپ کوسارا ہندوستان دیا جائے اور دوسری پیشکش اقبال کا کلام ہو تو میں بلا جھجک کہوں گا ' " اقبال کا کلام"
کیونکہ قائد اعظم جانتے تھے کہ کلام اقبال میں وہ تاثیر اور طاقت ہے کہ وہ پوری امت مسلمہ کو کھویا ہوا وقار دلا سکتا ہے
کالم کی طوالت سے بچنے کے پیش نظر قارئین تک مختصر طور پر کچھ اور پہلو آپکی شخصیت کے پیش کرتا ہوں علامہ اقبال کے بارے میں نامور کشمیری مورخ یوسف ٹینگ کہتے ہیں اقبال اس وقت کشمیر کی آزادی کی بات کرتے تھے جب ابھی پاکستان کا تصور بھی پیدا نہی ہوا تھا اقبال نے کشمیر کے بارے میں فرمایا ترجمہ'"اگرچہ میرا دل حجاز مقدس کی طرف مائل ہے لیکن میں کشمیری قوم سے تعلق رکھتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ مجھے اس سرزمین سے محبت ہے" علامہ اقبال کشمیر کانفرنس کے بانیوں میں شامل تھے اور 13 جولائی 1931 کے قتل عام نے آپ کو بہت رنجیدہ کیاتھا اور اس وقت آپ نے تشدد کے متاثرین کے لئے چندہ اکٹھا کر کے بھی کشمیر بھجوایا اور نامور وکلا کو بھی کشمیر بھجوایا اور کشمیر کانفرنس میں آپ نے یہ پڑھا
" توڑ اس دست جفا کش کو یا رب
جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا"
اسی طرع آپ نے کشمیر کے بارے میں فرمایا
" جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار 
ممکن نہی سرد ہو وہ خاک ارجمند"
علامہ محمد اقبال سید علی ہمدانی کے بہت بڑے معتقد تھے اور آپ نے کشمیری عوام کو تلقین کی کہ سید علی ہمدانی کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر غلامی کے جوئے سے نجات حاصل کریں علامہ کو کشمیریوں کا جزبہ اخوت اور بھائی چارہ اتنا پسند تھا کہ آپ نے فرمایا'
" سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر
چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر
در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر"
کشمیر کی آزادی کے لئے علامہ نے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں زبردست تحرک پیدا کیا اسی طرع آپ سپین سے مسلمانوں کے خاتمہ پر بھی اتنے افسردہ رہے کہ غرناطہ کی مسجد میں جا پہونچے اور آج میں مکمل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ غرناطہ کی مسجد میں آخری اذان اور نماز علامہ محمد اقبال نے پڑھی اسی حوالے سے ہسپانیہ کے مسلمانوں کے حوالے سے آپکا ایک مشہور شعر ہے جو فلسطین اور سپین دونوں پر صادق آتا ہے'
" ہے خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر کیوں حق نہی اہل عرب کا"
علامہ اقبال کی دوررس نگاہوں نے بہت پہلے یہ بھانپ لیا تھا کہ غیر مسلم طاقتوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست کے طور پر قائم کیا جائے اسی لئے آپ نے ہمیشہ ترکوں کو خبردار کیا کہ وہ یہودیوں کو غیر ضروری رعائیتیں نہ دیں اور اسی حوالے سے آپ نے دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی پر موتمر عالم اسلامی کے زیر اہتمام کانفرنس میں یروشلم جا کر شرکت کی اور اپنا سارا زور بیان کانفرنس میں شرکا کو یہ قائل کرنے کے لئے لگایا کہ وہ سب مل کر اپنا پورا زور اس بات پر لگائیں کہ فلسطین کے اندر یہودی ریاست نہ بن سکے اور آپ نے اس وقت انگریز عروج اور مسلمانوں کے زوال کے تناظر میں غیر مسلموں کے پاس وسائل کی فراوانی کے تناظر میں کیا خوب فرمایا '
" کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی"
اور آپ نے اس وقت کے تمام مسلمانوں کو فتنہ یہود سے ان الفاظ میں خبردار فرمایا
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جان پنجہ یہود میں ہے
ہسپانیہ کے بارے میں کیا خوب فرمایا'
" ہسپانیہ تو خون مسلمان کا امین ہے
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں"
کالم طویل ہو گیا اسے مختصر کرتے ہوئے بس اتنا کہوں گا کہ ہمیں آج ایک بار پھر سے امت مسلمہ میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کے لئے علامہ محمد اقبال کی تعلیمات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم علامہ اقبال کے تصور کے مطابق وحدت عالم اسلامی اور اتحاد عالم اسلام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر یقینی طور پر نہ تو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر بھارت جبر و ستم کر سکتا ہے اور نہ ہی غزہ کے مجبور مسلمانوں پر اسرائیل کوئی ظلم و ستم کر سکتا ہے نہ صرف یہ بلکہ اتحاد عالم اسلام سے پورے عالم اسلام کے تمام تر مسائل آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے ختم ہو سکتے ہیں ہمیں بس غور کرنا ہے آپ کی تعلیمات پر جیسا کہ'
" اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
آج ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید کی وجہ سے اپنی شناخت تک کھوتے جا رہے ہیں ہمیں چاہئے کہ علامہ محمد اقبال والے مسلمان بن کر خود اپنی انفرادیت قائم رکھیں تاکہ پھر سے ہم پوری دنیا کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنا سکیں اور دنیا بھر کے نہ صرف مسلنان بلکہ ہر انسان کے لئے اس دنیا کو جنت نظیر بنا سکیں

مزیدخبریں