علامہ اقبال مغربی جمہوریت کے سخت خلاف تھے جو بدقسمتی سے گزشتہ 76 سال سے پاکستان میں نافذ ہے۔ اقبال کے نزدیک مغربی جمہوریت سرمایہ داری اور سامراجیت کا لبادہ اور ملوکیت کا پردہ ہے۔ مغربی جمہوری نظام انسانوں کو حقیقی آزادی اور روحانی نشوو نما سے محروم کر دیتا ہے۔ مغربی جمہوریت نے سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کیا ہے یہ نظام اب اربوں روپے کا سیاسی کھیل بن چکا ہے۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات کے دوران اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ۔ علامہ اقبال اپنی شہرہ آفاق نظم ”ابلیس کی مجلس شوری“ میں لکھتے ہیں۔
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
علامہ اقبال کی لازوال نظم کے اشعار سو فیصد درست ثابت ہوئے ہیں ۔ اقبال کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان میں چونکہ جہالت زیادہ ہے، لوگ غریب ہیں اور دیہات میں رہتے ہیں جو مغربی جمہوریت کے تصور سے ہی ناآشنا ہیں۔ لہٰذا ایسی سر زمین پر یہ نظام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے معیار تعلیم مخصوص طرز زندگی اور سیاسی شعور بہت ضروری ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ”کیا انتخابات کی قمار بازی لیڈروں کی فرقہ بندی اور گروہ بندی اور پارلیمان کا کھوکھلا اجتماعی نظم کسانوں کے ملک کے لیے جو جمہوریت کی سرمایہ دارانہ معیشت سے نا آشنا ہیں موزوں ثابت ہوگا۔“ اقبال جمہوری نظام کو اسلام کی اخلاقی اقدار امانت دیانت صداقت انصاف اخوت آزادی اور مساوات کے تابع رکھنا چاہتے ہیں اور ایسی شیطانی جمہوریت کے خلاف ہیں جو کرپشن مفاد پرستی موقع پرستی اقربا پروری منافقت اور استحصال کو جنم دیتی ہو ۔ علامہ اقبال کا سیاسی و جمہوری تصور درست ثابت ہوا ہے۔ حاکمانہ غلامانہ مغربی جمہوری نظام نے پاکستانی ریاست کو ہر حوالے سے برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ اقبال کے خیال میں رائے دہندگان کو اہل اور باشعور ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے اور ریاست کے مستقبل کا بہتر فیصلہ کر سکیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کے دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔
علامہ اقبال نے 28 مئی 1937ءکو قائد اعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا کہ ”اسلام کے قانونی اصولوں کے مطابق کسی مناسب شکل میں سماجی جمہوریت کو قبول کر لینا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل روح کی جانب لوٹنا ہوگا۔“
علامہ اقبال کے تصور کے مطابق جمہوری نظام سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ استحصالی خاندانی اور وراثتی نہیں ہونا چاہیے ۔ جمہوری نظام پورے سماج کے لیے مفید ثابت ہونا چاہیے ۔ اقبال لکھتے ہیں کہ ”ایسی جمہوریت ہی بہترین نظام ہے جس کا مقصد یہ ہو کہ فرد کو اس قدر آزادی ہو کہ اس کی فطرت کے تمام امکانات کو ترقی اور نشوونما کے مواقع فراہم ہو سکیں۔“ اقبال کے اس تصور کے برعکس آج جو جمہوری نظام پاکستان میں چلایا جا رہا ہے اس میں سماجی انصاف اور مساوی مواقع نہیں ہیں۔
علامہ اقبال مکر وفریب پر مبنی شیطانی جمہوریت نہیں بلکہ اخلاقیات پر مبنی روحانی جمہوریت کے قائل تھے ۔ ان کے خیال میں انسان اور خدا کے درمیان پختہ تعلق روحانی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ کیمونزم اور کیپیٹلزم انسان کی روحانی اور مادی تسکین کا سبب نہیں بن سکتے۔ مذہب اور جمہوریت کے اشتراک سے ہی روحانی جمہوریت وجود میں آتی ہے ۔ اسلام گلوبل سوسائٹی کا سماجی نظام ہے۔ اسلام نسلی امتیاز کو ختم کر کے ان روحانی عناصر پر زور دیتا ہے جو فرد اور سوسائٹی میں موجود ہوتے ہیں۔ اسلام قومی ہے نہ نسلی اور نہ ہی نجی ہے بلکہ خالصتا انسانی ہے۔ ایک تمدن کی حیثیت سے اس کی جغرافیائی سرحدیں نہیں ہوتیں اسلام مساوات اور انسانیت پر مبنی ہے۔ اسلام دنیا کی تکمیل کے لیے کام کرتا ہے اور انسانیت کو روحانی زندگی پر آمادہ کرتا ہے ۔ جمہوریت کو انسانوں کی غیر مشروط اور کامل مساوات پر مبنی ہونا چاہیے۔ مسلم ملت کے تمام افراد معاشرتی اور معاشی تفاوت کے باوجود قانون کی نظر میں مساوی حقوق کے مالک ہونے چاہیں۔ علامہ اقبال ایک ایسی روحانی جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام قائم کرنا چاہتے تھے جس میں ارکان اسمبلی کا انتخاب سرمایہ اور جاگیر کی بنیاد پر نہیں بلکہ اہلیت اور دیانت کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایسا جمہوری نظام جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور حاکم بھی قانون کے تابع ہو۔ عوام کو مساوی مواقع اور حقوق حاصل ہوں اور ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے ۔ ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب رنگ اور نسل ترقی اور نشوونما کا موقع مل سکے۔ اقبال جمہوریت کو اسلام کے سنہری اصولوں کے تابع رکھنا چاہتے تھے البتہ وہ بادشاہت آمریت اور مذہبی پیشوائیت کے سخت مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ افراد کو تعلیم اور سیاسی شعور سے آراستہ کیے بغیر مثالی روحانی سماجی جمہوریت کا نظام قائم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کا موجودہ جمہوری نظام اقبال کے روحانی سماجی جمہوری تصور کے مطابق نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ایسا شیطانی جمہوری نظام ہے جس کی بنیاد ہی کرپشن اور مفاد پرستی پر رکھی گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بجائے شخصیت پرستی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ اس جمہوری نظام میں اخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں اور قانون صرف کمزور افراد پر لاگو کیا جاتا ہے۔ حکمران اشرافیہ قانون سے بالاتر ہے یا قانون اور انصاف کو خرید لیتی ہے۔ اگر کوئی قانون اس کے اقتدار کے لیے خطرہ بننے لگے تو حکمران اشرافیہ نئی قانون سازی کرکےاسے تبدیل کر دیتی ہے۔ اس نظام میں سرمایہ دار اور جاگیردار ہی منتخب ہوتے ہیں جو عوام کا استحصال کرتے ہیں اور انہیں ترقی کرنے کے مساوی مواقع فراہم نہیں کرتے۔ اگر پاکستان میں متناسب نمائندگی کے اصول کے مطابق انتخابات کرانے کا فیصلہ کر لیا جائے اور عوام امیدواروں کی بجائے براہ راست سیاسی جماعتوں کو ووٹ ڈالیں اور سیاسی جماعتوں پر یہ قانونی پابندی عائد ہو کہ وہ حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے عوام کی نمائندگی کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کریں گے جو اہل اور دیانت دار ہوں اور عوام میں اچھی شہرت رکھتے ہوں اور اسلام کے سنہری اصولوں سے آشنا ہوں۔ اسمبلی کے اندر نمائندگی کے لیے ایسے وکلاءاور علماءکا خصوصی کوٹا رکھا جائے جو جدید علوم آئین و قوانین کے ماہر ہوں اور اسمبلی کے اندر قانون سازی کے لیے رہنمائی اور معاونت کر سکیں۔ پاکستان میں ایسے اہل اور دیانت دار مثالی افراد موجود ہیں جو علامہ اقبال کے نظریے کے مطابق روحانی و سماجی جمہوریت کا کامیاب ماڈل دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ختم نبوت کے وکیل تھے انہوں نے 1937ءمیں قادیانیوں کو اقلیت یعنی غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے رموز بے خودی میں ختم نبوت کے بارے میں کہا۔
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
لا نبی بعدی ز احسان خدا است
پردہ ناموس دین مصطفی است
ستمبر 1974ءکو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ اس تاریخی فیصلے کے 50 سال مکمل ہونے پر ختم نبوت الائنس و حافظ الملت فاو¿نڈیشن (بھرچونڈی شریف) کے زیر اہتمام لاہور میں شاندار قومی علماءو مشائخ کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت سجادہ نشین درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف پیر سید عبدالقادر قادری نے کی ۔ جس میں پاکستان کے نامور علماءو مشائخ سینیئر صحافی اور دانشور شریک ہوئے اس کامیاب کانفرنس کے انتظام و انصرام کے لیے ختم نبوت الائنس کے ناظم اعلیٰ سید محمد شفیق احمد نے محبت اور عقیدت کے ساتھ کردار ادا کیا۔