علامہ محمد اقبال کا عشق مصطفی(۱)

Nov 09, 2024

خواجہ نورالزماں اویسی

          کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
حکیم الامت ، شاعر مشرق ، مفکر اسلام ، مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کا دل نور مصطفی ﷺ سے معمور رہا اور عشق مصطفی ﷺ آپ کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے آپ کو جتنا عقل سے سمجھا اس سے کہیں زیادہ عشق و محبت کی عینک سے دیکھا۔ ان کے لیے یہ تصور ہی راحت بخش تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ ان کے ہادی اور رہنما ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :
سالا ر کارواں ہے میر حجاز اپنا 
اس نام سے ہے باقی آرا م جاں اپنا 
علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ فنا فی الرسول کے مرتبہ پر فائز تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا کلام ہے اور انکی محافل میں رونما ہونے والے روح پرور مناظر ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ شاعر مشرق اور حکیم الامت کہلائے جانے کے حق دار ہیں۔علامہ اقبال رحمة اللہ تعالیٰ علیہ حضور نبی کریم سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے مفکر اسلام علامہ محمد اقبال رحمة اللہ تعالیٰ علیہ عشق مصطفی میں اس قدر مستغرق تھے کہ ہر بات کو وہ عشق محمدیکے حوالے سے دیکھتے تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے اپنے اردو اور فارسی کلام کے ذریعے عشق مصطفی کے پیغام کو عام کیا۔ آپ کی ایک ہی خواہش تھی کہ ملت کا ہر فرد حضور نبی کریم ﷺ کو اپنا آئیڈیل سمجھے۔ اور اپنی زندگیوں کو سیرت طیبہ میں ڈھال لے۔ جب بھی حضور نبی کریم ﷺ کا نام آتا آپ رحمة اللہ علیہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگتے۔اور ان میں سوزو گداز کی ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی جس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ علامہ محمداقبال حضور نبی کریم ﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :
در دل مسلم مقام مصطفی است 
آبروئے ما زنام مصطفی است 
بوریا ممنون خواب راحتش 
تاج کسری زیر پائے امتش 
در شبستان حرا خلوت گزید 
قوم و آئین و حکومت آفرید 
آن کہ بر اعداد و راحمت کشاد 
مکہ را پیغام را متثریب دا د 
مست چشم ساقی بطحا یتیم 
در جہاں مڑل مے و مینا مینم 
علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ کو اپنی والدہ کے ساتھ بہت پیار تھا لیکن اپنی والدہ کی وفات پر بھی اس قدر آنسو نہیں بہائے جس قدر آپ جب قرآن مجید سنتے یا پھر کوئی نعت کا شعر پڑھتے وقت آپ کا نام زبان پر آتے ہی آپ کی انکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں کوئی آپ کی شان میں ایسے الفاظ کہتا جو آپ کی شان کے خلاف ہوتے تو اسے کھڑے کھڑے محفل سے نکال دیتے تھے۔

مزیدخبریں