19ویں صدی کے آغاز میں جب ہندوستان کے اندر مغربی سامراجیت اپنے پنجے گاڑھ چکی تھی تو علامہ اقبال کی صورت میں امتِ مسلمہ کو ایسا رہنما ملا کہ جس نے اپنی شاعری سے نہ صرف عام لوگوں کے اندر بیداری کی روح پھونکی بلکہ اسلام کی نشاةِ ثانیہ کے لیے فکری بنیادیں استوار کیں۔ آپ کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں تھا بلکہ اِک دانشور، فلسفی، شاعرتھے۔ ہند کے محذوش حالات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے پرمغز تحریریں مرتب کیں کہ جن میں مقصدیت کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔ اپنی تحاریراور شاعری میں علامہ اقبال نے بالخصوص نوجوان طبقہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں شاہین پرندہ سے تشبیہہ دی کہ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کا تھک کر گر جانا تو قرینِ قیاس ہے مگر شاہین تھک کر گر جائے یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ ہمت ہارنا تیری شان کے خلاف ہے۔ تجھے یہی زیبا ہے کہ ہر صبح نئے ارادوں کے ساتھ مصروفِ عمل ہو جا۔ بے شک ہر شام تیرے لیے تاریکیاں لے کر کیوں نہ آئے اور ڈوبتا سورج تیرے جنون پر کیوں نہ مسکرائے لیکن تو ان حادثوں سے بے نیاز ہو کر ہمہ تن جدوجہد میں لگا رہ۔ یہی جذبہ اور یہی عمل پیہم تجھے تیری خودی سے ہمکنار کرے گا۔
خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی شاعری میں ایسے رہنما اصول نوجوانوں کے سامنے پیش کیے جو دورِ حاضر کی نوجوان نسل کے لیے آبِ حیات اور نسخہءکیمیا ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری طلسمی اکسیر رکھتی ہے کہ جس نے بے چینی کے دور میں ہند کے مسلم نوجوانوں کو سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی لحاظ سے جھنجوڑا۔ انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ یاد دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے صاحب نظر پیداکیا تھا، تجھے شاہین کی نظر عطا فرمائی تھی لیکن اس غیر اسلامی تعلیم اور غلامی نے آنکھ کا نور چھین کر چمگادڑ کی نگاہ رکھ دی ہے۔ شاعرِ مشرق نے نوجوانوں کو اس حقیقت سے روشناس کروایا کہ تبدیلی کا رخ موڑنے کا یہ جذبہ اور طاقت خودبخود پیدا نہیں ہو جاتی۔ اس کی آبیاری کے لیے عزم، ہمت، خواہش، جستجو اور ذوق و شوق موجود ہونا ضروری ہے۔
علامہ اقبال تبدیلی کے ضمن میں قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے تھے:۔ ”اللہ تعالیٰ لوگوں کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اس کے لیے کوشاں نہ ہوں“۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مو¿من سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اقبال کے اس قول پر تاریخِ عالم کے صفحات شاھد ہیں کہ بلاشبہ مومنین کی مٹھی بھر جماعت نے دشت و دریا، کوہ صحرا کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوںاور قدموں سے روند ڈالا اور آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔ سعد بن ابی وقاص، خالد بن ولید، محمد بن قاسم، موسی بن نصیر اور طارق ابنِ زیاد کے زندہ جاوید کارنامے تاریخِ عالم کے مطلع پر ہمیشہ تابندئہ ستاروں کی مانند واضح رہیں گے۔ آج اقبال کے شاہین کے فکر و شعور کا یہ عالم ہے کہ تقدیر کا مفہوم مقدر اور قسمت ہاتھ کی لکیر سمجھا ہوا ہے اور انہی کے فیصلوں پر اکتفا کیے بیٹھا ہے کہ جو ہونا ہے وہ تو ہوکر رہنا ہے یوں جدوجہد وسعی کرنے سے کیا فائدہ؟ ایک وقت تھا کہ خدا کا منشا ان کے ارادوں پر منحصر تھا:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
عصرِ حاضر میں اہلِ شوق کہیں نظر نہیں آتا۔ جہاں تھوڑا شوق نظر آتا ہے ان میں حق گوئی کی جرا¿ت نہیں ہے۔ سوچنے کی دلیری نہیں ہے۔ احساس کمتری کے باعث قوم میں تحقیق کرنے کی صلاحیت نہیں رہی بلکہ تحقیق کو گناہ ٹھہرا لیا ہے۔ اقبال کے شاہینوں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ جب قوم کے افراد ہی محنت سے جی چرا لیں اور سوشل میڈیا کو ہی قبلہ و کعبہ تصور کر لیں، فیس بک پر گھر بیٹھے ہی مذمتی کومنٹس کو حرفِ آخر مان لیں۔ بغیر نماز قائم کیے ایک آیت شیئر کر کے 5000نیکیاں کمانے کو زادِراہ سمجھنے لگیں، صرف امتحان پاس کرنے اور ڈگریوں کی خاطر شب و روز کتب بینی کی جائے اور افسوس کتابوں کے اندر جو علم ہے اس کو نہ سمجھا جائے تو عین ممکن ہے کہ مغربی یلغار دوبارہ دھاوا بول دے۔ ملّتِ اسلامیہ اس وقت ایک خوفناک سکوت کے عالم میں ہے۔ قوم میں نہ تو کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی قوم میں زندگی کی ہلچل ہے۔ اقبال کے شاہینوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اٹھیں اور جہانِ نو کے بانی کی حیثیت سے موجودہ بیمار انسانیت کے دکھوں کا مداوا بن کر اک نئی توانائی عطا کریں۔٭