عظیم فلسفی‘شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شخصیت کے بے شمار گوشے ہیں جن میں سے شاعری ان کا سب سے معتبر حوالہ ہے تاہم اگر انکے معیشت‘ سیاست اور سماج بارے افکار اور نظریات کا مطالعہ کیا جائے تو وہ ایک عظیم معشیت دان‘ سیاسی رہنما و سماجی سائنسدان کے طور پر بھی بہت بلند مقام ہر فائز دکھائی دیتے ہیں۔ آج وطن عزیز جن اندرونی و بیرونی خطرات کا شکار ہے۔ لاچار عوام جس تنگدستی‘ غربت‘ بےروزگاری اور نا انصافی کے ھاتھوں پریشان حال ہے ان تمام خطرات اور مسائل کا حل بھی ہمیں اقبال کی مسیحائی میں مضمر ملتا ہے۔
”علم الاقتصاد“ علامہ اقبال کی معشیت بارے انتہائی اہم تصنیف ہے جو 1903ءمیں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں اقبال کے معاشی نظریات اس دور میں سامنے آئے جب ایڈم سمتھ‘ جےایس مل‘ ریکارڈو‘ الفریڈ مارشل کا یورپ میں خاصا چرچہ تھا جبکہ تاج برطانیہ کے زیر انتظام ہندوستان میں معشیت کو بطور مضمون کوئی خاص پذیرائی بھی حاصل نہ تھی۔ لہٰذا اگر ”علم لاقتصاد“ کو متحدہ ہندوستان میں معشیت کی پہلی کتاب قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا جس میں اقبال غربت کو ایک مسئلہ‘ جاگیرداری کو اس کی وجہ اور زرعی اصلاحات کو اس کا حل قرار دیتے ہیں۔ اقبال مغربی اقوام کے ہاتھوں مشرقی اقوام کے ہونے والے استحصال سے بھی بخوبی آگاہ نظر آتے ہیں۔ ”علم القتصاد“ کے اندر مشرقی اقوام کے لیے ایک نئے عالمی معاشی نظام کی روشنی بھی ملتی ہے جو آج ایشیائی ممالک کے ہاں زیر بحث ہے۔ گویا ایشیائی ممالک اپنے تیئں جس عالمی معاشی نظام کی جدوجہد آج کر رہے ہیں اس کی ضرورت و اہمیت اقبال نے آج سے 120 برس قبل ہی بیان کر دی تھی کہ غربت میں کمی ترقی پذیر ملکوں کا سب سے اہم مسئلہ ہے کیونکہ اقبال کے نزدیک بیسویں صدی کے آغاز تک ترقی یافتہ قومیں غربت سے باہر آچکی تھیں بلکہ غربت کو شکست دے چکی تھیں۔
علامہ اقبال متحدہ ہندوستان کے ہندو ”بنیے“ کے ہاتھوں مسلمانوں کے استحصال کا بھی گہرا ادراک رکھتے تھے جس حقیقت کے پیش نظر وہ مسلمانوں کو معاشی طور پر مضبوط دیکھنے کے خواہاں تھے جس کا اظہار ان کے خطابات میں بھی جا بجا ملتا ہے۔ 28 مئی 1937ءکو لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ روٹی کا مسئلہ اہم سے اہم ہوتا جارہا ہے اور مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ وہ گزشتہ دو سو سال سے نیچے سے نیچے جارہے ہیں۔
21 مارچ 1932ءکو لاہور میں ہونے والے لیگ کے جلسے میں آپ نے جہاں معاشی فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے پروگرام ترتیب دینے کی اہمیت پر زور دیا وہاں مرد و خواتین کے لیے ثقافتی ادارے قائم کرنے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی۔ زرعی ترقی اور صنعتی ترقی اقبال کے دل کے قریب ملتی ہے۔ جب تاج برطانیہ نے نیلی بار کالونی میں 131/4/ ایکڑ اراضی بڑے زمینداروں کو دینے کا فیصلہ کیا تو اقبال نے تجویز کیا کہ 2/1/ حصہ کسانوں کو بھی ملنا چاہیے۔ منٹیگو چلمزفورڈ ریفارمز کے زمانہ میں جب تینوں قانون ساز کونسلز میں جاگیرداروں کی اکثریت ہوگئی جن کا مقصد فقط اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ تھا تو علامہ پسے ہوئے کسانوں کے لیے کھڑے ہوئے اور زرعی اصلاحات کی ترغیب دی کیونکہ اقبال سمجھتے تھے کہ زمین پیداوار کا ذریعہ ہے اور اسے سماجی انصاف بر مبنی اصولوں کی روشنی میں سب کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیے بال جبریل میں ایک مقام پر علامہ بیان کرتے ہیں کہ زمین نہ تیری ہے نہ میری ہے بلکہ خدا کی ہے۔
علامہ بےروزگاری کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے صنعت کی ترقی و ترویج کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں مقامی صنعت کاری کی بات سب سے پہلے علامہ نے کی تھی اگرچہ بین الاقوامی فورمز پر یہ بات گاندھی سے منسوب کی جاتی ہے۔ شیخ محمد اشرف کی کتاب اقبال کے خیالات اور افکار میں علامہ کے ایک خطاب کا حوالہ کچھ یوں ملتا ہے کہ “ہم عملی طور پر صنعت کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ فقط صنعتی ترقی ہی ہمیں بےروزگاری کی لعنت سے بچا سکتی ہے۔ بنائی کی صنعت اور جوتا سازی کی صنعت کا اس صوبے میں اچھا مستقبل ہے اور اگر ہم ان صنعتوں کی حوصلہ افزائی کریں تو ہم صوبے کو بےروزگاری سے بچا لیں گے“
گویا سماجی انصاف کے قیام کے لیے اقبال زرعی و صنعتی ترقی اور سماجی و معاشی تبدیلیوں کو ناگزیر قرار دیتے ہیں جس کی بنیاد پر ہی انسان کے اخلاق کی تکمیل ہوسکتی ہے۔ تاہم سرمایہ داری کے استحصالی کردار پر تنقید کرتے ہوئے بانگ درا میں علامہ فرماتے ہیں کہ اے اہل مغرب خدا کی زمین کوئی دوکان نہیں۔
اقبال کے ہاں جہاں مرد مومن کی خوبیوں کا تذکرہ ملتا ہے وہاں دہقان کا نوحہ بھی نظر آتا ہے
دہقان ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمین ہے
ایک دوسری جگہ دہقان سے محبت کا اظہار ان الفاظ میں ملتا ہے۔
جس کھیت سے میسر نہ ہو دہقان کو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اقبال کی دہقان کے لیے محبت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقبال روح کا گہرا ادراک رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ غربت روح کو متاثر کرتی ہے۔ غربت کے باعث روح کا شیشہ کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔ گویا اقبال کی شاعری‘ ان کی تصنیف ”علم الاقتصاد“ اور ان کے خطابات کاجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اقبال کا معاشی نقطہ نظر‘ ان کی سوچ اور وڑن فقط اسلامی فلسفہ کی پیداوار نہیں بلکہ انھوں نے مغربی مفکرین خصوصاً نطشے‘ ہیگل‘ کانٹ اور کارل مارکس سے بھی اکتساب فیض کیا گویا اقبال کے ہاں مشرق و مغرب دونوں ایک سنگم پر ملتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سلامتی کی خاطر بکھرے ہوئے ہجوم کو ایک قوم بنانے کے لیے علامہ کے افکار و ارشادات سے رہنمائی حاصل کی جائے تاکہ منزل کی سمت کا تعین کیا جاسکے۔ بلاشبہ اقبال کے معاشی و سماجی نظریات پر عمل پیرا ہو کے ہم اپنے لیے نیا معاشی و سماجی سوشل آرڈر تلاش کرسکتے ہیں جہاں غربت کا خاتمہ کر کے 25 کروڑ عوام کے لیے نیا سماجی انصاف کا نظام قائم کیا جاسکے۔