اقبال اورفلسطین

علامہ اقبال کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ آپ کی شخصیت کے نمایاں پہلوو¿ں میں ان کا مذہبی سکالرہونا بھی ہے۔ شاعر تو تھے ہی، عظیم قانون دان بھی تھے۔ ان کے رپوٹد مقدمات سو سے زیادہ ہے۔ سیاست کی بات کی جائے تو بہت بڑے سیاستدان تھے، فلسفی تھے، استاد تھے۔ طنز و مزاح میں بھی ان کی شناخت تھی جس کا عموماً ہدف سر شہاب الدین بنا کرتے تھے۔
سر شہاب الدین بہت لائق وکیل تھے۔ وکالت کے پیشے میں ایک خاص عزت اور ممتاز مقام کے حامل تھے۔ اسکے علاوہ مجلس قانون ساز کے صدر بھی رہے۔ سر شہاب الدین اقبال کے بے تکلف دوستوں میں بے شمار ہوتے تھے۔ شہاب الدین لمبے قد کے گراں ڈیل لحیم شحیم شخص تھے۔ ان کا رنگ حددرجہ سیاہ تھا۔ خوش خوراک بھی بہت تھے انکی یہ تمام عادات اور خصائص اقبال کی رگ ظرافت کو پھڑکاتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی سر شہاب الدین کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو اقبال ہنس کر معذرت بھرے لہجے میں کہتے: 
”تمہیں دیکھتے ہی مجھ پر لطیفوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ خدا کیلئے مجھے پھبتی سے نہ روکا کرو“۔
 موسم بہار کی آمد پر ایک مرتبہ شاہدرہ میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا گیا جس میں بہت سے وکلاءحضرات بھی مدعو تھے۔ اقبال اور بیرسٹر مرزا جلال الدین بھی پارٹی میں شرکت کیلئے پہنچ چکے تھے۔ اچانک بیرسٹر سر شہاب الدین پارٹی کے پنڈال میں داخل ہوئے۔ چودھری صاحب نے بالکل سفید رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی اقبال کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔ انہوں نے بیرسٹر جلال الدین کو مخاطب کرتے ہوئے سر شہاب الدین کی جانب اشارہ کیا اور پنجابی میں بولے:
”بھئی دیکھو دیکھو.... کپاہ وچ کٹاوڑھ گیا جے“
(بھئی دیکھو دیکھو.... کپاس میں کٹا گ±ھس گیا ہے)
 رمضان کے مہینے میں سرچودھری شہاب الدین نے اپنی کوٹھی میں افطار پارٹی دی جس میں نامور وکلاءاور معززین شہر شامل تھے۔ اچانک چودھری صاحب نے اپنے ملازم سے کہا: ”ذرا پانی لانا“ اقبال نے ملازم کو تلقین کرتے ہوئے ہدایت دی: ”بھئی بالٹی بھر کر لانا، چودھری صاحب پانی مانگتے ہیں“ بیرسٹر شہاب الدین نے نئی کوٹھی بنوائی تو اسے دیکھنے کیلئے کچھ دوست وکلاءکو بلایا۔ ان میں اقبال بھی شامل تھے۔ شہاب الدین نے دوستوں سے دریافت کیا۔ ”اس کوٹھی کا نام کیا رکھا جائے“ اقبال نے جھٹ جواب دیا: ”اس کے متعلق کاوش کی کیا ضرورت ہے اس کا نام ”دیومحل“ رکھیے۔
مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے لیے اقبال کی لازوال خدمات ہیں۔ جن کا ہمیشہ پاکستان میں اعتراف کیا جاتا ہے۔ ان کی اردو کے ساتھ فارسی شاعری نے ان کی شخصیت کو ایرانیوں کی لیے امر کر دیا۔
 ہم بانیانِ پاکستان کو بھی کبھی کبھی سیاست میں گھسیٹ لیتے ہیں۔ علامہ اقبال صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال پاکستان کی سیاست میں حصہ لیتے رہے، وہ چیف جسٹس بھی بنے۔ انہوں نے کوئی تو پارٹی جوائن کرنی تھی۔ اپنی پارٹی بھی بنا سکتے تھے۔ انہیں سیاسی حریفوں کا سامنا ہونا تھا سو ہوا۔اقبال کی بہو اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی اہلیہ ناصرہ جاوید بھی ہائیکورٹ کی جج رہیں۔
 ڈاکٹر جاوید اقبال کی اولاد بھی سیاست کے میدان میں اتری۔ آج سیاست میں مخالفت ، ذاتیات اور دشمنی تک بھی بات چلی گئی ہے۔ ان کا کسی بھی پارٹی سے تعلق ہو سکتا ہے۔ مگر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ ان کی سیاست کا انتقام علامہ اقبال سے لیا جانے لگا۔ 2015ءمیں اقبال ڈے پر چھٹی ختم کر دی گئی۔ جو کئی سال بند رہی۔ دو سال قبل پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ چھٹی بحال کرائی۔ آج علامہ اقبال ڈے پر پورے ملک میں بحالی کے بعد تیسری مرتبہ چھٹی کی گئی ہے۔
علامہ کی زندگی میں1931ءبہت اہم سال تھا۔ اسی سال 14 اگست کے دن انہوں نے لاہور کے ایک جلسے میں کشمیر کی تحریک آزادی کا اعلان کیا اور اسی سال 6 دسمبر کو علامہ اقبال موتمر اسلامی کی طرف سے فلسطین پر کانفرنس میں شرکت کے لیے یروشلم پہنچے۔ علامہ اقبال بیت المقدس کے قریب واقع ہوٹل فندق مرقص میں ٹھہرے۔6دسمبر 1931 ئ کی شام بیت المقدس سے متصل روض المعارف میں موتمر اسلامی کا تعارفی اجلاس ہوا جس کے بعد علامہ اقبال مسجد اقصیٰ میں آئے۔ پہلے انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ پھر مسجد اقصیٰ میں نماز مغرب ادا کی۔ یہیں پر تلاوت اور نعت خوانی کی ایک محفل میں شرکت کی۔ نماز عشاءبھی یہیں ادا کی اور آخر میں علامہ اقبال نے سب شرکاءت ہاتھ اٹھا کر عہد کیا کہ وہ مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں گے۔
علامہ اقبال 27 دن تک موتمر کے اجلاسوں میں شریک رہے اور روزانہ مسجد اقصیٰ میں آ کر نماز ادا کرتے تھے۔ یہاں کئی مرتبہ انہوں نے فاتح اندلس طارق بن زیاد کے متعلق اپنے فارسی اشعار سنائے جن کا عربی ترجمہ ایک عراقی عالم دین کیا تھا۔ علامہ اقبال قاہرہ کے راستے سے واپس ہندوستان آ گئے لیکن فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ ان کا رشتہ تادم مرگ قائم رہا۔ 
ڈاکٹر محمد وسیم انجم اپنی تحقیق میں رقمطراز ہیں کہ 3 جولائی 1937 ءکو انہوں نے رائل کمیشن کی رپورٹ کے خلاف ایک تفصیلی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی برطانوی کوششوں کی کھل کر مذمت کی اور واضح کیا کہ اس سازش کو روکنے کے لیے ترک اور عرب آپس میں اتحاد قائم کریں۔اس بیان میں علامہ اقبال نے کہا ”دوسرا سبق یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ موجودہ حالات میں یہ بادشاہ اس قابل نہیں کہ وہ اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کوئی صحیح فیصلہ کر سکیں“۔
 اسی کو ویڑن اور بصیرت کہتے ہیں۔فلسطین کے حوالے سے آج بھی پڑوسی ممالک کا ویسا ہی رویہ جس کی نشاندہی علامہ کی طرف سے کم و بیش ایک صدی قبل کر دی گئی تھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی بربریت اور سفاکیت میں 45 ہزار فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے دگنا ہے۔ان میں زندگی بھر کے لیے اپاہج ہونے والے بھی شامل ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ فلسطینی نہ صرف اپنے گھروں میں محفوظ نہیں ہیں بلکہ ہسپتالوں میں، ان کے لیے بسائی گئی خصوصی پناہ گاہوں پر بھی اسرائیل کی طرف سے بمباری کی جاتی ہے۔13 ماہ قبل شروع ہونے والی اس جنگ کی لپیٹ میں مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک آ چکے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے لبنان یمن شام اور عراق پر بمباری معمول بن چکا ہے۔ایران پر بھی دو مرتبہ اسرائیل نے حملہ کیا۔حماس اور حزب اللہ کی قیادتوں کو شہید کر دیا گیا۔مسلم ممالک شاید خائف ہیں اگر وہ اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو ان کا حشر بھی اسماعیل ہانیہ، حسن نصر اللہ، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور اسماعیل سنوار جیسا نہ ہوسکتا ہے۔
علامہ اقبال اپنی زندگی کے اخر تک بھی فلسطین سے وابستہ رہے۔وفات سے چند ماہ قبل علامہ اقبال نے 7 اکتوبر 1937 ءکو قائداعظم کے نام اپنے خط میں مسئلہ فلسطین پر اپنے اضطراب کا اظہار کیا اور ا±مید ظاہر کی کہ آل انڈیا مسلم لیگ فلسطین پر صرف قراردادیں منظور نہیں کرے گی بلکہ کچھ ایسا کرے کہ فلسطینی عربوں کو فائدہ بھی ہو۔

ای پیپر دی نیشن