فرموداتِ اقبال سے استفادہ کرنے کی ضرورت

علامہ اقبال شاعر مشرق ہیں، فلسفی شاعر اور شاعر قرآن ہیں‘ علامہ اقبال مفکر پاکستان ہیں۔ یہ وہ خطابات ہیں جوعلامہ کے چاہنے والوں نے ا ن کو دیئے ہیں۔ کسی نے علامہ کی شاعری میں فلسفے کو پایا تو اس نے فلسفی شاعر کا خطاب دیا۔ کسی نے آپ کے اشعار میں قرآن پاک کی عظیم الشان آیا ت کی تفسیر پائی تو اس نے اقبال کو شاعر قرآن کے عظیم خطاب سے نوازا۔ کسی اور کو آپ کے خطبات میں مسلمانوں کے لئے جداگانہ ریاست کا تصور نظر آیا تو اس نے آپ کو مفکر پاکستان کہا۔ علامہ کو خود ہی اپنی اہمیت اور اپنی شاعری کا تاابد زندہ رہنے کا احساس تھا۔آپ جانتے تھے کہ اگر نطشے، گوئٹے، ملٹن اور شیکسپیر مغرب کے نمائندہ شعراءتھے اور ان کو مغر ب میں ایک بلند مقام حاصل تھا تو وہی رتبہ علامہ اقبال کو مشرق میں ملاتھا۔ اگر مغرب میں کوئی نطشے اور شکسپئیر کو پرستش کی حد تک چاہتا تھا تو مشرق میں ایسے لوگ تھے اور ہیں جو علامہ کی پوجا کی حد تک ان کا احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ علامہ نے خود کو شاعر مشرق جانا۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شاعری کے رنگ تو اتنے ہمہ جہت ہیں کہ ہر پڑھنے والے کو اس میں بسا اوقات اپنے افتاد طبع کے طفیل کوئی نہ کوئی پہلو ایسا نظر آ جاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ حضرت علامہ نے فلاں بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور پھر اس سے رہا نہیں جاتا بلکہ وہ ان کو ایک نئے خطاب سے نواز جاتا ہے علامہ اقبال کی شاعری کا ایک رخ یہ ہے کہ وہ عزت کے ساتھ جینے اپنے حقوق کو دوسروں کے ہاتھوں غصب ہونے سے بچانے اوردنیا کی رہبری کا حق ادا کرنے کے لئے ایمان کے ساتھ ساتھ بے پناہ مادی ، مالی اور حربی طاقت کا حصول لازمی قرار دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا میں قوموں کے زندہ رہنے کے لئے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر قوت کاحصول از حدضروری ہے۔ علامہ اقبال کو انسان کی خودی اور اس خودی کی تعمیر و پرورش کی بدولت انسانی عظمت کی جو بلندیاں حاصل ہیں وہ ان سے بخوبی آگاہ بھی تھے اور ان کے قائل بھی۔آپ انسان کو خودی اور جہد مسلسل کے توسط سے اس دنیا کو اپنے لئے جنت نظیر بنانے کی تعلیم دیتے ہوئے اسی نظم میں انسان سے مخاطب ہیں۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان کا پیوند مٹی سے ہے اور مٹی ہی میں اسے اترنا ہے۔ اسلام اور مسیحیت ہر دو مذاہب کے پیشوا انسان کو اسی نسبت سے عاجزی و انکساری اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں مزید یہ کہ سیاسی رہنما وطن سے محبت اور اپنی مٹی سے وفاداری برتنے کی تبلیغ کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ علامہ اقبال اس حقیقت سے انکاری نہیں لیکن ان کے پاس اسکے برعکس یہ دلیل ہے کہ مانا کہ انسان کا خمیر مٹی سے اٹھایا گیا ہے لیکن اس کا جوہر اسکی روح جو خدا وند عظیم سے اس کو ملی ہے وہ اس کو ایسی عظیم ہستی میں تبدیل کرتی ہے جس کا تعلق مٹی سے ہونے کے باوجود خدائی صفات سے متصف ہے۔ اگر وہ اپنی اس عظمت کا ادراک کرے باالفاظ دیگر وہ اپنی خودی کی پرورش کرے تو عجب نہ ہوگا کہ وہ زمان و مکان کی قیود کو توڑ کر حدود پھلانگ کرامر بن جائے۔
 خا کی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی رومی ہے نہ شامی ہے کاشی نہ سمر قندی۔
 سکھائی فرشتوں کو آد م کی تڑپ اس نے، آد م کو سکھا تا ہے آد اب خدا وندی۔
 اس موضوع کو تھوڑے سے مختلف الفاظ میں بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ مسلمہ ہے کہ انسان کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے لیکن اللہ نے اس کو ایسے عظیم جوہر عطا کیے ہیں جن کی بناءپر اس کا تعلق زمین سے کم اور سماوی چیزوں سے زیادہ ہے۔
 فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہرِ ملکوتی، خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند۔
 علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ انسان کا مقام ستاروں، سیاروں، چاند اور سورج سے کہیں اعلی وارفع ہے۔ انسان ایک زندہ حقیقت ہے جسے قدرت نے لازوال و لامتناہی خوبیوں سے مالا مال کیا ہے زمین سے نسبت رکھنے کے باوجود وہ کارہائے نمایا ں سر انجام دے رہا ہے کہ عقل و خرد حیران و پریشان ہیں۔ ایک انسان جو زندہ جاوید ہستی ہے اور جو اتنا عظیم کہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے قطعا ً ستاروں کی گردش کا تابع ہو ہی نہیں سکتا: ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا، وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں۔ 
 تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانے، کہ خا ک ز ندہ ہے تو تابع ستار ہ نہیں۔
 علامہ اقبا ل سمجھتے ہیں کہ بالآخر جب انسان اپنی شناخت پالیتا ہے اوروہ اپنے اندر خد اکی ودیعت کردہ ملکوتی صفات سے روشناس ہوجاتا ہے تو اس کا مسکن یہ دنیا ہونے کے باوجود اس کا رشتہ ناطہ اس سے کٹ جاتا ہے اوروہ روحانی طورپر اتنا پاکیزہ اور ذہنی لحاظ سے اتنا بلند آہنگ رتبہ حاصل کرلیتا ہے کہ وہ اپنی خودی کی بدولت خدا تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد خالق اور مخلوق کے درمیان نہ صرف تمام پردے ہٹ جاتے ہیں بلکہ یہی انسان جس کو نا سمجھ لوگ تقدیر کی زنجیروں میں جکڑا ہوا سمجھتے ہیں بذات خود اللہ تعالی کی تقدیر بن جاتا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ید اللہ بن جاتا ہے اوریہ دنیا و مافیہا اس کے تصرف میں آجاتی ہیں۔ اس میں وہ طاقت آجاتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا تابع فرمان بن جاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے اشارے پر چلتا ہے۔
 لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب، گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب۔ 
 عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ، ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب ! 
 علامہ اقبال کا انسان جو پہلے بھی ملائک کا ہم ر کاب تھا اپنی جائے سکونت تبدیل کرنے اور آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں جاگزیں ہونے کے باوجود اپنی عظمت سے ہاتھ باندھ نہیں بیٹھا بلکہ اسی طرح ان کی ہمسری بلکہ بر تری کا اظہار کر رہا ہے۔ ایک طرف حضرت علامہ اقبال کی تعلیمات تودوسری طرف بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد لیڈران ہیں جنہوں نے دوسرے قومی ہیروز کی طرح حضرت علامہ کو بھی متنازعہ بنانا شروع کر ا دیا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے حضرت علامہ اقبال کے یوم پیدائش کی سرکاری تعطیل اس دلیل سے ختم کی گئی کہ زیادہ تعطیلات ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں جبکہ اسی سال تین نئی تعطیلات ہولی، دیوالی اور ایسٹر پر سرکاری تعطیل کی قراردادیں قومی اسمبلی نے پاس کیں۔ حکومت سندھ نے اس پر باقاعدہ عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ یقینا ان تین نئی تعطیلات سے ملکی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی کیونکہ یہ ہماری نیشنل اسمبلی میں بیٹھے لیڈروں نے فیصلہ لیا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے ایک اور خاص تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں 23 مارچ کی مناسبت سے لگنے والے ہولڈنگز پر سے علامہ اقبال کی تصویر کو نکالا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے ہر سال لگنے والے تمام ہولڈنگز پر قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے پورٹریٹ ایک ساتھ ہر جگہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ دو تین سالوں میں ایک بھی ہولڈنگ پر علامہ اقبال کی تصویر واضح طور پر نہیں لگائی گئی شاید یہ بھی فیصلہ ان جعلی ڈگری ہولڈرز حضرات کا ہی ہو جو قومی اسمبلی میں انہیں پاکستانی بزرگوں کے نام پر کھاتے ہیں۔ چونکہ ڈگریاں جعلی ہیں، جاگیرداری نظام اور پیسے کی ریل پیل کی بدولت ممبر بن جاتے ہیں پھر فیصلے بھی ایسے ہی آئیںگے۔ کچھ عرصے سے احباب سے سننے کو ملتا ہے کہ ایک مغربی وسائل پر چلنے والی لابی باقاعدہ طورپر پراپیگنڈہ کر رہی ہے کہ اقبال کے اشعار نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب راغب کرنے کا باعث بن رہے ہیں اس لئے اقبال کو قومی شاعر کا درجہ نہیں ملنا چائیے۔ اب توحالات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی انفرادی رائے نہیں ہو سکتی بلکہ یہ ایک لابی کی رائے سے بڑھ کر ریاستی پالیسی بنتی جا رہی ہے جس کا مقصد پاکستان کی بنیاد اکھاڑنا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو ورنہ اس عمارت کے محفوظ رہنے کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ پھر اکھنڈ بھارت یا وہ گریٹر انڈیا ہی ہو گا جس کی توقع امریکہ اور اس کے حواری طویل عرصے سے باندھے بیٹھے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو حضرت علامہ کے فرمودات سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

ای پیپر دی نیشن