اقبال! ہم شرمندہ ہیں

خالدنجیب خان
khalednajeebkhan@gmail.com
یوم اقبال گزشتہ کئی سالوں سے جس طرح سے منایا جارہا ہے اْس کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ یہ محض ایک رسم کے طور پر ہی منایا جاتا ہے تو غلط ہر گز نہ ہوگا۔ہماری آج کی نوجوان نسل کو علامہ اقبال کے حوالے سے اِس سے زیادہ علم نہیں ہے کہ پاکستان کا خواب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے دیکھا تھا۔بلکہ اس حوالے سے آج کل بعض فورمز پر یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ آج ہم جس پاکستان میں رہ رہے ہیں،اِس کا خواب علامہ اقبال نے نہیں دیکھا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال نے مسلمانان برصغیر پاک وہند کیلئے صرف الگ وطن کا تصور پیش نہ کیا بلکہ اْس کیلئے عظیم قائد کی بھی نشاندہی کی کردی ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی وجہ شہرت پاکستان کا خیال پیش کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اْن کی علمی قابلیت دنیا بھر میں مسلمہ تھی۔ ان کی فلاسفی اور شاعری کا ڈنکا چار سو بج رہا تھا اور آپ کو مسلم لیگ پنجاب کا سربراہ بھی منتخب کیا گیا تھا۔
اْس وقت برصغیر میں مہاسبھائی ذہنیت کے سبب مسلمانوں کی ترقی کا کوئی راستہ موجود نہیں تھااور وہ بیچارگی ومجبوری کے عالم میں ہندوؤں اور انگریزوں کی کاسہ لیسی پر مجبور تھے۔ انگریز کا تصور جمہوریت ہندواکثریت کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کوہمیشہ کیلئے مجبور ومحکوم بناناتھا۔ بقول اقبال اِس تصور حکومت میں بندوں کوگنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ یہ تصور اْس ملک میں تومفید ثابت ہوسکتا ہے جہاں ایک ہی عقیدہ وملک کے لوگ اور قوم آباد ہوں مگرایسا ملک جہاں مختلف اقوام آباد ہوں یہ تصوراکثریت کو اقلیت پر حکمرانی کا کھلا موقع دیتا ہے۔مسلمان قوم ایک طرف فرنگی حکمرانوں کے انتقام کا نشانہ تھی کہ اْنہوں نے اْن سے اقتدار چھینا تھا دوسری طرف ہندو اکثریت سے خوفزدہ تھی۔ مسلمان چونکہ فرنگی حکمرانوں کو نکالنا چاہتے تھے اِس لیے ہندو اکثریتی قوم سے مل کر جدوجہد کے خواہاں تھے۔اِن حالات میں علامہ اقبال نے بیداری ملت کا کام شروع کیا۔بے شک اقبال بھی اْن اَکابر میں تھے جوپہلے متحدہ جدوجہد کے قائل تھے اور اْن کا یہ ترانہ زبان زدخاص وعام تھا۔
’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘
پھرحالات وواقعات نے جلد ہی اْن پر ہندوذہنیت واضح کردی او روہ ہندو مسلم اتحاد کوناممکن قراردینے لگے۔چنانچہ آپ نے مسلمانوں میںالگ قوم کا تصور عام کیا اورکہا۔
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ؐہاشمی
علامہ کا کہنا تھا کہ ہم محض مذہب کی بنا پر الگ قوم کا دعوی نہیں کرتے بلکہ ہمارا موقف ہے کہ اسلام جاندار اور آفاقی مذہب ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت اور اسلام پر یقین نہ رکھنے والے دوسری قوم ہیں۔یہاں تک مسلمانوں کے ہاں جو چیز حلال خوراک ہے، وہ ہندوؤں کے ہاں مقدس اور ناقابل تقسیم گاؤماتا ہے۔ دونوں اقوام کے تہذیب وتمدن الگ الگ ہیں۔ اِس پیغام کو عام کرنے کیلئے اْنہوں نے صرف اشعار ہی نہیں کہے بلکہ ہندوستان کے طول وعرض میں گئے، خطبات دئیے، خطوط لکھے اور لیگ کی تنظیم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ 
دسمبر1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی سالانہ اجلاس الٰہ آباد میں ہوا جس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا؛" برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کیلئے الگ مملکت قائم کردی جائے کیونکہ دونوں اقوام کا یکجارہنا ناممکن ہے اور نہ ہی یکجا ہوکر آگئے بڑھ سکتے ہیں۔ الٰہ آباد میں گنگاوجمنا کا پانی جس طرح الگ الگ نظر آتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں اقوام اکٹھی رہنے کے باوجود الگ الگ ہیں۔ ہندوستان کے مسئلے کا حل علیحدہ قومیت کاو جودناگزیر ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کی اکائیاں یورپی ممالک کی طرح علاقائی نہیں۔ یہ خطہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی مختلف نسلوں پر مشتمل انسانی گروہوں کا ہے۔ الگ الگ قومیتی گروہوں کو تسلیم کئے بغیر پوری جمہوری اصول کا اطلاق ہندوستان پر نہیں ہوسکتا۔ اِس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہندوستان کے اندر مسلم انڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے"۔ گویا اْنہوں نے بڑی وضاحت سے ہندوستان کے حالات، مسلمانوں کی مشکلات، اْن کے مستقبل اور مسلمانان ہند کی منزل کی نشان دہی کی اورمسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کا خیال پیش کیا۔ ملت نے آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر حضرت قائداعظم کی قیادت میں اْس تصور کو عملی جامہ پہنایا اور اْس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مملکت اسلامی پاکستان قائم ہوئی۔آج ہر پاکستانی اِس بات پر نازاں تو ہے کہ پاکستان کا خواب اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم نے اِس کی تعبیر کی مگر وہ اِس بات پر پریشان بھی ہے کہ یہ وہ پاکستان تو نہیں ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اقبال کے نظریات کو بھلا کرخود ایک ایسی ڈگرپر گامزن ہوگئے ہیں کہ جو  ہر آنے والے دن ہمیں منزل سے دور لے جارہی ہے۔اقبال نے تو کہا تھا
 جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 
دین کوسیاست سے جداکرکے ہم نے  مغرب کی پیروی اختیار کر لی۔اقبال نے تو کہا تھا اسلام ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے!۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے ہمیں ریاست یا اجتماعی مسائل پر سوچنیاور بات کرنے کی اجازت ہی نہ دی ۔حالانکہ محض نماز روزہ حج زکوۃ ہی نہیں اسلام ریاست کیلئے اقامت دین کی ہدایت بھی کرتا ہے۔  

ای پیپر دی نیشن