ڈاکٹر عدنان طارق
خطبہ الہ باد مسلم برصغیر کی تاریخ میںایک اہم سنگ میل گردانا جاتا ہے۔ یہ خطبہ علامہ محمد اقبال نے 29دسمبر 1930کویوپی کے مشہورشہر الہ آباد میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے دوران پیش کیا تھا۔اس خطبے کے نفس مضمون کی وقعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگلی ڈیڑھ دو دہائیوںمیں مسلم لیگ کی سیاست کا مرکزی محور ضرور ی تحریف کے بعد اسی خطبہ کے مندرجات اور خیالات تھے۔ 1940میں قرارداد لاہور کے منظور ہونے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید سے ایک موقع پر یہ کہا کہ اگرچہ اقبال آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بھی نہیں وہی کیا جو ان کی خواہش تھی۔
انڈین نیشنل کانگریس جب ہندو مہا سبھا کے دبائو میں آکر نہرو رپورٹ کے اندر جداگانہ انتخابات کو نظر انداز کر چکی تھی۔ یہ ایک بڑی گھمبیر صورتحال تھی جس میں مسلم پنجاب سیاست کے اندر مضبوط اور واضح کردار ادا کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ اس لئے مسلم پنجاب کی سیاست کی جانب سے نہرو رپورٹ میں جداگانہ انتخابات کی نظر انداز کیے جانے کے بعد ردعمل ناگزیر تھا۔ اسی لئے ردعمل میںعلامہ محمد اقبال کی سیاسی فہم و فراست کے باعث شمال مغربی صوبوں کے ریاستی بندوبست کے مطالبے کی شکل میں خطبہ سامنے آتا ہے۔ خالد بن سعید اس خطبے کو تقسیم ہندوستان کے فطری مطالبے کے تاریخی تسلسل میں دیکھتے ہیں۔ان کے مطابق تاہم اقبال کا تصور تقسیم گزشتہ تجاویز کی بنسبت واضح اور ممکن حد تک حقیقت پسندانہ تھا۔یہ تصور جغرافیائی اور نظریاتی ہر دو ابعاد کے مابین فرق کو پاٹنے کی ایک قابل فہم کوشش تھی۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کے نزدیک خطبہ الہ آباد اصل میں مسلم ریاست کے تصور کی نظریاتی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق اقبال کے نزدیک شوکت کے بغیر اسلام کا تصور ممکن نہیں اور شوکت کے مظاہر میں سب سے اہم مظہر ادارہ ریاست ہے۔جو اقبال کے بقول اسلام کا علاقائی تشخص ہے۔ جس کے مطابق ایک نیا مسلم معاشرہ جدید خطوط پر اسی وقت جنم لے سکتا ہے جب اس کے پاس ایک مقتدر ریاست ہو۔ اقبال ایسی ریاست کو مسلم استحکام کے علاوہ استحکام انسانیت کے ضمن میں بھی اہم کلید گردانتے ہیں۔کیونکہ اقبال کے نزدیک اسلام انسانی اجتماعی ہییت کو آفاقی استحکام دینے کی غرض سے ایک مذہب کی حیثیت سے عالم انسانیت میں لایا گیا تھا۔ معروف پاکستانی محقق احمد سعید اپنی کتاب تحریک پاکستان :ایک تحقیقی جائزہ میں رقمطراز ہیں کہ اس خطبے میں علامہ اقبال اسلامی تصور قومیت کے ایک بڑے مفسر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ا ن کے مطابق علامہ اقبال یہ سمجھتے تھے کہ ایک اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام کی حیثیت سے اسلام مسلم ہندوستان کی تاریخ کا سب سے اہم عنصر رہا ہے اور دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ایسا خطہ ہے جہاں اسلام نے انسانی تعمیر کی قوت کا بہترین مظاہرہ کیا ہے اور ایک معاشرہ تشکیل دیا ہے۔پروفیسر احمد سعید کے بقول اقبال ان نتائج تک ہندوستان کے فرقہ وارانہ صورتحال میں باہمی تعاون کے حصول میں پے در پے ناکامیوں کے بعد پہنچے تھے۔ احمد سعید کے نزدیک گول میز کانفرنسوں میں زیر بحث تشکیل ہونے والے وفاقی ریاست کی نوعیت کے بارے اقبال پیش از وقت تحفظات کا شکار تھے۔ ان کے مطابق ایسی کسی بھی ممکنہ ریاست کے قیام سے مسلمان ہمیشہ کے لئے اکثریتی گروہ کے غلبے میں آ جاتے۔ اقبال انہی بنیادوں پر مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کی تجویز کے قائل تھے۔ اقبال عالم انسانیت کے لئے ایک مثالی ریاست کی تلاش میں تھے ، عزیز احمد کے بقول اقبال کے نزدیک یہ مثالی ریاست اسلامی کے دائرہ کے اندر ہونی چاہیے اور ایسی کسی ریاست کی تشکیل نہیں ہو سکی۔ یہ ریاست کسی علاقائی یا نسلی جماعتی وفاداری کی بنیاد پر قائم نہیں ہوگی۔
عرفان وحید عثمانی بھی عزیز احمد کے اسی خیال کو اپنے نقطہ نظر سے بیان کرتے ہیں کہ 1910میں اقبال علی گڑھ کالج کے اسٹریچی ہال میں اپنے خطبہ میں یہ باور کروا چکے تھے کہ اسلام ریاست ہے ۔ تاہم وہ اس اسلای ریاست اقبال کا نظری خواب تھا۔می ریاست کے نظری خاکیلئے جغرافیہ کی تلاش میں تھے۔ جسے انہوں نے1930 میں خطبہ الہ آباد میںپیش کر دیا۔جبکہ دوسری جانب ہندوستان کی عملی سیاست کا میدان تھا۔جس میںسیلف گورنمنٹ کا نقشہ آہستہ آہستہ ابھر رہا تھا اس آہستہ روی سے ابھرتے سیلف گورنمنٹ کے نقشے کو لے کر اقبال خاص تحفظات کا شکار تھے۔ ان کے مطابق اس نقشے کی کوئی بھی ممکنہ عملی شکل ہندوستان میں مسلم سیاست کو اس کا جائز مقام نہیں دے گی۔عزیز احمد کے مطابق اقبال خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا مرکز محسوس تصور کرتے تھے۔لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی بحران کے حل کے لیے انہوں نے اس مرکز محسوس کے نظریے میں تھوڑی سی تبدیلی کی۔تاکہ مسلم ہندوستان کے مخصوص سیاسی مسئلہ کا قابل عمل حل اس ترمیم شدہ نظریے کے اطلاق کی صورت میں سامنے لایا جاسکے۔وہ برصغیر کے مسلمانوں کی ہمہ جہتی بقا کے لیے ایک مسلم علاقائی ریاست کو ضروری گردانتے ہیں۔
اقبال کے نزدیک آزاد ریاست کا قیام محض اکثریتی گروہ ہندوؤں کے سیاسی تسلط سے آزادی کی غرض سے نہ ہو گا۔ بلکہ یہ ان افکار و نظریات سے بھی آزادی حاصل کرے گی ،جو نوآبادیاتی انتداب کے باعث اپنا ہمہ گیر اثر قائم کر چکے ہیں۔پوراخطبہ دراصل ایک ایسی ریاست کے قیام کا خیال پیش کرتا ہے جس میں ریاست کا ادارہ ہندوستانی اسلام کے و تمدن کے طور پر پھیلنے کی ذمہ داری ادا کرے۔ اس موضوع پر ایک عمدہ کام کے کے عزیز کی جانب سے پیش کیا گیا۔چار حصوں پر مشتمل نظریہ پاکستان کی ایک تاریخ نامی کتاب کے پہلے حصے میں انہوں نے اقبال اور خطبہ الہ آباد کے موضوع پر ایک سو بیالیس صفحات پر مشتمل تاریخی تجزیہ پیش کیا ہے۔ ایک پیشہ ور مورخ کی حیثیت سے انہوں نے تمام دستیاب بنیادی مصادر کی مدد سے اس طویل محاکمہ میں اقبال اور ان کے نظریات کی روایتی اور قدامت پسندانہ تعبیرات کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے کے ساتھ اپنے نقطہ ہائے نظر کو بھی صراحت کے ساتھ واضح کیا ہے۔ان کے نزدیک اقبال کو جس انداز میں پاکستان کے خواب کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ تاریخی شعور اور تناظر کی درست تشکیل کا محتاج ہے۔ کے کے عزیز کے نزدیک اس خطبے نے مسلم لیگ کیمستقبل کے مطالبہ برائے علیحدہ وطن کو ماقبل رسوخ of message antiquity فراہم کیا تھا۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے نزدیک اقبال کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے اپنے اپنے خطوں میں رہنا آسان ہو جاتا اور یہ دونوںایک دوسرے کے لیے مخاصمت کی بجائے مصالحت اور صحت مندانہ باہمی تعلقات کا باعث بنیں گے۔دونوں اقوام ایک دوسرے کے دفاع کا بھی باہمی سامان کریں گے۔ یہ تھی خطبہ الہ آباد کے پیچھے علامہ کی صحت مندانہ سیاسی سوچ جسے تاریخ نویسی کی روایت نے نظر انداز کیا اور قدامت پرستوں، لبرلز ناعاقبت اندیشوں نے اپنی نظریاتی تعبیرات کے سانچے میں ڈھالا۔
اقبال کا خطبہ الہ آباد سیاسی نظام کیلئے فکری رہنمائی
Nov 09, 2024