علامہ اقبال کا مقام اہلبیت اطہار کیلئے قلبی لگاؤ

Nov 09, 2024

ڈاکٹر اصغر مسعودی 
مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں کیلئے فکری راہنماء ہی نہیں بلکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے حوالے سے عرب و عجم میں بھی قدر و منزلت کا مقام رکھتے ہیں۔آپ کے اردو ،فارسی کلام میںجا بجا اپنے اسلاف سے عقیدت و موّدت کا  اظہار حق وصداقت پر مبنی تعلیمات کا بے مثال نمونہ ہے۔آج پوری قوم سمیت فارس وہندستان میں بسنے والے ان کے فکری پیروکاربصد احترام اپنے مرشد کا یوم ولادت منا رہے ہیں۔حکیم الامت علامہ اقبال کاکلام جہاں ہمارے لئے فلسفیانہ رموز سے آگہی کا ذریعہ ہے وہیں ہمارے  لئے دین کی ہدایت کا سرچشمہ حیات بھی ہے۔   نبی اکرم ؐ اور اہل بیت اطہار کی شان میںآپ کے اتنے اشعار ہیں کہ ان پر مشتمل ایک الگ کتاب مرتب کی جا سکتی ہے ۔ اس موضوع کے تین پہلو علامہ اقبال نے بیان کیے ہیں۔
 اہل بیت اطہار کا مقام اور رسول اللہ ؐ سے نسبت، سیرت حضرت امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا، اقبالؒ عشق رسول ؐ میں بے خود ہیں۔ ان کے نزدیک آنحضرت ؐ کے مقدس گھر سے اڑتی خاک کا جھونکا کوہ طور پر نور الٰہی کی تجلی کی طرح انسانوں کے لیے راہ ہدایت کھولتا ہے۔ فارسی مجموعہ کلام اسرار خودی میں حضرت امام حسین ؑ اور حضرت علی ؑ کا مقام بیان کیا ہے اور رموز بیخودی میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا مقام اور واقعہ کربلا بیان کیا ہے ۔
علامہ اقبال کے اشعار ان افکار و خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں جو ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال بی بی فاطمہ الزہرا سلام اللہ کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ 
نور چشم رحمت العالمین
آں امام اولین و آخرین
بانوی آن تاجدار ھل اتی 
مرتضی مشکل کشا شیر خدا
ما در آن مرکز پر کار عشق 
مادر آن کاروان سالار عشق
ترجمہ:
آپ رسول اللہ ؐ کی آنکھوں کا نور ہیں 
وہ رسول ؐ جو اولین اور آخرین کے امام ہیں
حضرت علی ؑ کی زوجہ ہیں
جو اللہ کے چنے مشکل کشا اور شیر خدا ہیں
مکتب عشق کے نقطہ مرکزی کی ماں ہیں 
عاشقوںکے سالار یعنی امام حسین ؓکی ماں ہیں
1918ء میں ’’در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا ‘‘کے نام سے مثنوی رموز بے خودی میں شائع ہوئی جس میں واقعہ کربلا اور سیرت امام حسین ؑ کے بارے علامہ اقبال ؒ لکھتے ہیں۔ 
آن امام عاشقان پور بتول
سرو آزادی زبستان ِ رسول
اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
موسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
چون خلافت رشتہ از قرآن گیسیخت
حریت راز ہر اندر کام ریخت
بر زمین کربلا باریدہ رفت
لالہ در ویرانہ یا کارید و رفت
مدعا لیش سلطنت بودی اگر
خود نگر دی باچنین سامان سفر
رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندو ختیم
ترجمہ:
وہ عاشقوں کے امام اور فاطمہ زہرا کے فرزند 
رسول اکرم ؐ کے باغ کے سرو آزاد تھے
اللہ جن کے والد بسم اللہ کی ب ہیں
اور وہ خود یعنی بیٹا ذبح عظیم کے اصل معنی
موسی اور فرعون اور شبیر اور یزید
یہ زندگی کی دو متضاد قوتیں ہیں
جب خلافت کا رشتہ قرآن سے منقطع ہو گیا
اور حقیقی حریت کے حلق میں زہر انڈیل دیا گیا
آپ زمین کربلا پر بارش کی طرح برسے
اور اپنے خون سے ویرانوں میں گل لالہ لگائے
اگر آپ کا مقصد حصول سلطنت ہوتا
تو اتنے کم ساتھیوں کیساتھ سفر ہی کیوں کرتے
ہم نے قرآن کا رمز حسین ؑسے سیکھا
اور ان کی جلائی ہوئی آگ سے شعلے حاصل کئے۔ 
تہران میں ایک مسجد ہے جس کے ساتھ حسینیہ ارشاد نامی مرکز ہے جہاں شہر کی بڑی تقریبات ہوتی ہیں۔اسٹیج کے ساتھ آیات قرآنی اور دوسری جانب یہ نظم آویزاں ہے۔ ایک موقع پر کسی نے اعتراض کیا کہ علامہ اقبال کے علاوہ کسی اور کی نظم نہیں ملی لگانے کے لیے ۔ حسینیہ ارشاد کے مہتمم مرتضی مطہری تھے۔ ڈاکٹر علی شریعتی جو وہاں موجود تھے، نے اعتراض کرنے والے کو جواب دیا کہ مقام سیدنا امام  حسین ؑ کے بارے میں اس سے بہتر کلام آج تک لکھا ہی نہیں گیا۔ 
اسرار خودی میں علامہ اقبال ؒ حضرت علی ؑ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ 
مسلم اول شہر مرداں علی
عشق را سرمایہ ایمان علی
ا ز ولائے دود مانش زندہ ام
در جہاں مثل گہرتا بندہ ام
مرسل حق کردنامش بُو تراب
حق ید اللہ خو اند در ام الکتاب
زیر پاش اینجا شکوہ خیبر است 
دست اوآنجا قسیم کوثر است 
ذات او دروازہ شھر علوم
زیر فرمائش حجاز و چین و روم
ترجمہ: پہلے مسلمان علی ؑ ہیں، مردوں کے سردار علی ہیںعشق کے لیے ایمان کا سرمایہ علی ہیں۔ 
میں ان کے خاندا ن کی محبت سے زندہ ہوں اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں۔ 
اللہ کے سچے رسول ؐ نے آپ کو ابو تراب کا نام (لقب) دیا۔ اللہ نے آپ کو قرآن میں ید اللہ (اللہ کا ہاتھ) قرار دیا۔ 
اس جگہ یعنی اس دنیا میں خیبر کی شان و شوکت ان کے پائوں کے نیچے ہے اور اس جہاں میں ان کا ہاتھ آب کوثر تقسیم کرنے والا ہے۔ 
ان کی ذات شہر علوم کا دروازہ ہے اوران کے فرمان کے زیر تابع حجاز و چین و روم یعنی ساری دنیا ہے۔ 
فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال مرحوم نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنی آخری عمر میں وصیت کی کہ اہل بیت سے محبت کا دامن کبھی نہ چھوڑنا۔ ان سے محبت کو اپنی زندگی کا جزو بنانا۔ 
فرمان رسول ؐ ہے:ہر اولاد اپنے والد سے منسوب ہے مگر اولاد فاطمہ ؓکا نسب میں ہوں۔
حدیث رسول ؐہے:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری میری عطرت یعنی اہل بیت ، یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہوں گے جب تک میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ 
 اقبالؒ کے یہ اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔ 
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
یعنی اس معرکہ کا آغاز حضرت اسماعیل ذبیح اللہ سے ہوا اور اس کی انتہا نواسہء  رسول ؐ تھے۔ آپ اس مضمون کو رموز بیخودی میں یوں بیان کرتے ہیں ۔ 
دشمنانان چوں ریک صحرا لاتعد
دوستان اوبہ یزداں ہم عدد
سر ابراہیم و اسمعیل بود
یعنی آج اجمال را تفصیل بود
ترجمہ: ان (یزید) کی فوج ریت صحرا کی طرح لا تعداد تھی جبکہ امام عالی مقام کے ساتھی بہت کم تھے یعنی (72) لیکن وہ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کا راز تھے یعنی اسماعیل ؑتو بچ گئے لیکن امام حسین ؓنے اپنی جان کا نذرانہ دے دیا۔ 
علامہ اقبال کی شاعری میں قرآن ، نبی کریم ؐ اور ان کے اہل بیت سے محبت کا جمال واضح نظر آتا ہے۔ جہاں وہ مدینہ طیبہ کا ذکر کرتے ہیں وہیں نجف اشرف کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں کربلا کا اور بی بی زینبؓ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ 

مزیدخبریں