لاہور (خبرنگار+ نامہ نگار+ ایجنسیاں) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ تدارک کیس میں مارکیٹیں روزانہ رات 8بجے بند کرنے اور اتوار کے روز مارکیٹیں مکمل بند کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے تمام پرائیویٹ دفاتر میں 2 روز کے لئے ورک فراہم ہوم کرنے کا حکم جاری کردیا۔ ورک فرام ہوم کی پالیسی شروع کی جائے۔ مزید سماعت پرسوں 11 نومبر کو ہوگی۔ عدالت نے ڈولفن پولیس کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کیخلاف کارروائی اور ٹریفک پولیس کو گاڑیاں بند کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ کو لاری اڈوں پر دھواں چھوڑنے والی بسوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایڈووکیٹ جنرل ، سی سی پی او متعلقہ افسروں کے ساتھ میٹنگ کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل افسروں کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کرنے کے عدالتی حکم کے بارے میں آگاہ کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل سموگ سے متعلقہ سرگرمیوں کو مانیٹر کریں۔ عدالت نے حکم دیا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے موٹر وے اور رنگ روڈز داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔ سموگ کے حوالے سے ایمرجنسی کی صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ اقدامات کرنے سے سموگ ایک سال میں کنٹرول نہیں ہو جائے گی۔ پانچ سال تک ان اقدامات کے نتائج آنا شروع ہوں گے۔ چائنا والوں نے سموگ اور آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے کامیاب اقدامات کئے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ٹرک اور ٹرالر سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کا بڑا سبب ہیں۔ ڈولفن پولیس اور پولیس اہلکار ہیوی ٹریفک کنٹرول کرنے کیلئے تعینات کئے جائیں۔ ہر سماعت پر حکومت کو سموگ کنٹرول کیلئے اقدامات کا کہتے رہے، اصل آلودگی کا باعث ہیوی ٹریفک کا دھواں چھوڑنا ہے، اگر لاری اور بسوں کو نوٹس دیئے ہیں تو ابھی تک بند کیوں نہیں ہوئیں، دھواں چھوڑنے والی بسوں کو 50، 50 ہزار جرمانہ کریں تو کیسے ٹھیک نہیں ہوں گے، فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر گاڑیاں سڑک پر کیسے آسکتی ہیں، محکمہ ٹرانسپورٹ کو اقدامات کرنے چاہئے تھا، ہم حکومت کی مدد کیلئے یہ اقدامات کررہے ہیں، حکومت شاید عدالتی احکامات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہی۔ ڈی سی وغیرہ پر حکومت کا دبائو ہو تو کام کریں گے۔ سموگ کی صورتحال کا انتظامیہ کو رات کو جائزہ لینا چاہئے۔ ڈی سی لاہور اور کمشنر کو رات کو نکل کر دیکھنا چاہیے کیا ہورہا ہے۔ ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس پر عملدرآمد ممکن نہ ہو۔ شادی پر ون ڈش تو کردی لیکن وہاں پر رش کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات نہیں کئے۔ ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے حمید اللہ ملک نے سموگ کے بارے میں حکومتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ادارے غلط ہیں جس وجہ سے سموگ قابو نہیں آرہی ہے۔ ممبر ماحولیاتی کمیشن نے عدالتی احکامات پرعملدرآمد کی رپورٹ پیش کی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے مینارپاکستان کی طرف رات11بجے نکلاتوگاڑیاں بڑی تعدادمیں دھواں چھوڑتی نظرآئیں،کاش افسران باہر نکل کر دیکھیں کہ کیا حالات ہیں،کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز اپنے اپنے اضلاع میں دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں ،کیا ان افسروں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ باہر نکل کر دیکھیں ؟یہ کوئی طریقہ نہیں کہ لوگوں کاکاروباربند کردیں، گاڑیوں نے شہر میں آنا ہے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون ہونا چاہیے،نہر کنارے ٹریفک کی بھرمار ہے، دھواں دینے والی گاڑیوں کیخلاف کارروائی کاکسی کوکوئی خیال نہیں۔وکیل نے موقف اپنایا کہ موجودہ حالات میں رات 10بجے کے بعد کرفیو لگا دیناچاہیے، کرفیوکے باعث کوئی بلا ضرورت باہرنہیں نکلے گا، جس پرعدالت نے کہا کہ حکومت کرفیو کا فیصلہ کرسکتی ہے،کیا آپ چاہتے ہیں سارے فیصلے عدالت کرے اور لوگ اس پر تنقید کریں ؟کیا حکومت اقدامات نہیں کرسکتی ؟۔ علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے سموگ پر قابو پانے کیلئے گرین لاک ڈاؤن میں توسیع کا فیصلہ کر لیا۔ گرین لاک ڈاؤن کا اطلاق عوامی مقامات پر 17 نومبر تک ہوگا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سموگ کی ابتر صورتحال کے پیش نظر پنجاب حکومت نے پارکس، تفریح گاہیں اور عجائب گھر دس روز کیلئے بند کر دیئے۔ پبلک اور پرائیویٹ پارکس، چڑیا گھر، پلے گراؤنڈ میں عوام کا داخلہ بند ہوگا۔ تاریخی مقامات، مقبروں ،جوائے لینڈ پر بھی عوام کا داخلہ بند کیا گیا۔ فیصلے کا اطلاق لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور ملتان ڈویژن پر ہوگا۔ دوسر ی جانب لاہور سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں پنجاب پولیس سموگ کی روک تھام اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے ان ایکشن ہے۔ سموگ کریک ڈاؤن کے دوران 58 مقدمات درج ہوئے جبکہ 23 افراد گرفتارہوئے، 387 افراد کو 7 لاکھ 54 ہزار روپے کے جرمانے عائد کئے گئے جبکہ 26 افراد کو وارننگ جاری کی گئی۔ ترجمان پنجاب پولیس نے بتایا کہ فصلوں کی باقیات جلانے کی 22، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی 307، صنعتی سرگرمی پر 04، اینٹوں کے بھٹوں کی 09 اور دیگر 15 خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئیں۔