ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے نئے صدر بن گئے ہیں۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ وہ دنیا کے اہم ترین اور طاقتور ملک کے سب سے اہم عہدے پر ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت امیدیں ہیں۔ پاکستان میں میڈیا امریکی انتخابات کی مسلسل کوریج کرتا رہا ہے۔ پاکستان میں میڈیا نے تو ایسے کوریج کی ہے جیسے انتخابات پاکستان میں ہو رہے ہیں اور یہاں نئی حکومت کا قیام عمل میں آ رہا ہے۔ یار لوگ تو یہاں پاکستان کی سیاست کو امریکا کی سیاست سے ملاتے رہے۔ یہاں بات ہو رہی ہے کامیلا ہیرس نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد نہیں دی، تو کیا امریکا میں بھی سیاسی قیادت تلخ ہوتی جا رہی ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کی سیاست، جمہوریت اور حالات کسی بھی قسم کا کوئی موازنہ نہیں ہے پھر بھی لوگ اپنے اپنے انداز میں اس حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ امریکی انتخابات پر دنیا میں بات ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان میں بھی لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے پاکستان میں کوئی سیاسی تبدیلی بھی آ سکتی ہے۔ یا کسی شخص کو یا کسی سیاسی جماعت کو فائدہ ہو سکتا ہے تو ایسا ہونے کے امکانات ذرا کم ہیں۔ شخصیات کی پسند نا پسند اور تعلقات ملکوں کے مفادات پر حاوی نہیں ہوتے، پاکستان میں کام جیسے چل رہا ہے ایسے ہی چلتے رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہی کریں گے جس کا فیصلہ ان کی عسکری قیادت نے طے کرنا ہے، ذاتی حیثیت میں کسی سے تعلق ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی بھی ملک کا سربراہ ملکی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام شروع کر دے اور ریاستی ادارے خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہیں گے۔ بہت سے لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دے رہے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان کے لیے سب کچھ بدل کر رکھ دیں گے ایسا نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں حکومتی شخصیات نے بھی اس حوالے سے ردعمل دیا ہے۔ جیسا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان ماضی میں امریکا کو انکار کر چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کال کی تو یہ نہیں ہو گا کال آئے اور بانی پی ٹی آئی ان کے حوالے کر دیں۔ جو سمجھتے ہیں پاکستان انکار کی جرات نہیں کرسکتا، سن لیں کہ نواز شریف نے 5 ارب ڈالر کی امریکی پیشکش ٹھکرا کر ایٹمی دھماکا کیا تھا۔
یاد رہے اس سے قبل بانی پی ٹی آئی کے قریبی دوست ذلفی بخاری نے کہا تھا کہ صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم سے عمران خان اور ان کی پارٹی سے ہونے والی نا انصافیوں پر بات کریں گے۔ ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کی سزا پر تشویش کا اظہار کر چکے اور ان کے دل میں عمران خان کے لیے نرم گوشہ ہے۔ اسد قیصر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ مداخلت کی مخالفت بھی کی ہے لیکن پی ٹی آئی اس حوالے سے زیادہ پرامید ہے۔ جماعت کے اندر یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ موجودہ حالات میں پائی جانے والی سختی کو نرمی میں بدلنے کے لیے اگر کہیں سے بھی مدد ملے تو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بہرحال یہ پاکستان میں سیاسی قیادت کے مسائل ہیں۔ سیاسی قیادت اپنا مفاد پہلے رکھتی ہے باقی معاملات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ نومنتخب امریکی صدر کو ایسی کسی بھی سرگرمی سے دور رہنا چاہیے۔ ایسا کوئی بھی عمل کسی بھی دوسرے ملک کی آزادی و خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہو گا۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے سب سے بڑا چیلنج دنیا میں جاری جنگوں کو ختم کرنے کا ہے۔ اس کا اظہار بھی وہ کر چکے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں کامیابی پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں نئی جنگیں شروع کرنے کے بجائے جاری جنگیں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وکٹری سپیچ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ آج ہم نے تاریخ رقم کی ہے، امریکا نئی بلندیوں پر پہنچے گا اور ملک کے تمام معاملات اب ٹھیک کریں گے۔ ایسی کامیابی امریکی عوام نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، ایسی سیاسی جیت اس سے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی گئی امریکا کو محفوظ، مضبوط اور خوشحال بناؤں گا،امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں گے، امریکا میں سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ حامیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں،آپ کے ووٹ کے بغیر کامیابی ممکن نہیں تھی۔ میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کروں گا بلکہ جنگوں کو ختم کروں گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جاری جنگوں کے خاتمے کا اعلان تو کیا ہے وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج مشرق وسطی ہے۔ کیا وہ شام، یمن، لبنان کو پرامن بنانے کے لیے فیصلے کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ اس وقت اسرائیل اور ایران آمنے سامنے ہیں، دونوں ممالک ایک دوسرے پر فضائی حملے کر رہے ہیں۔ بالخصوص فلسطین میں گذرے بارہ چودہ ماہ کے دوران ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا جا چکا ہے۔ دنیا میں انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار مسلمانوں کی نسل کشی پر سب خاموش ہیں، فلسطین میں بچوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں، معصوم بچے اپنے بہن بھائیوں کو اٹھائے پھر رہے ہیں، ہسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے، خواتین کے لیے زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ اس جنگ کو ختم کرنے کی طرف جائیں گے یا نہیں کیونکہ امریکہ تو انسانیت کے اس قتل عام میں ہمیشہ اسرائیل کا حمایتی رہا ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یقینا یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر چڑھائی کر دیں اور دنیا ایک نئی جنگ میں داخل کو جائے۔ اسرائیل تو یہ چاہتا ہے کہ اسے عالمی حمایت اس انداز میں حاصل ہو کہ وہ خطے میں تمام مسلمان ممالک کو نشانہ بنائے اور مسلمانوں کا خاتمہ کرتا چلا جائے۔ یہی حالات مقبوضہ کشمیر کے ہیں، وہاں بھی مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں، کیا ڈونلڈ ٹرمپ نریندرا مودی کو لگام ڈالیں گے، کیا ڈونلڈ ٹرمپ اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے حالانکہ ماضی میں اس حوالے سے ان کے ساتھ خوشگوار یادیں نہیں لیکن پھر بھی دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اگر جنگوں کے خاتمے کی بات کر دی ہے تو مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتوں کے مابین ایک بڑی جنگ کا خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے تو کیا ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کو اس ممکنہ جنگ سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
آخر میں پیر نصیر الدین نصیر کا کلام
ہم سا بھی ہوگا جہاں میں کوئی ناداں جاناں
بے رْخی کو بھی جو سمجھے ترا احساں جاناں
جب بھی کرتی ہے مرے دل کو پریشاں دْنیا
یاد آتی ہے تری زْلفِ پریشاں جاناں
میں تری پہلی نظر کو نہیں بھولا اب تک
آج بھی دل میں ہے پیوست وہ پیکاں جاناں
ہم سْخَن ہو کبھی آئنیے سے باہر آ کر
اے مری روح ! مرے عکسِ گریزاں جاناں
دشتِ گلرنگ ہے کس آبلہ پا کے خوں سے
کر گیا کون بیاباں کو گلستاں جاناں
مجھ سے باندھے تھے بنا کر جو ستاروں کو گواہ
کر دئیے تْو نے فراموش وہ پیماں جاناں
کبھی آتے ہوئے دیکھوں تجھے اپنے گھر میں
کاش پورا ہو مرے دل کا یہ ارماں جاناں
اک مسافر کو ترے شہر میں موت آئی ہے
شہر سے دور نہیں گورِ غریباں جاناں
یہ ترا حْسن ، یہ کافر سی ادائیں تیری
کون رہ سکتا ہے ایسے میں مسلماں جاناں
کیوں تجھے ٹوٹ کے چاہے نہ خْدائی ساری
کون ہے تیرے سوا یوسفِ دوراں جاناں
نغمہ و شعر مرے ذوق کا حصّہ تو نہ تھے
تیری آنکھوں نے بنایا ہے غزلخواں جاناں
جاں بہ لب، خاک بسر،آہ بہ دل خانہ بدوش
مجھ سا بھی کوئی نہ ہو بے سرو ساماں جاناں
یہ تو پوچھ اس سے کہ جس پر یہ بلا گْزری ہے
کیا خبر تجھ کو کہ کیا ہے شبِ ہجراں جاناں
وہ تو اک نام تمہارا تھا کہ آڑے آیا
ورنہ دھر لیتی مجھے گردشِ دوراں جاناں
یہ وہ نسبت ہے جو ٹوٹی ہے نہ ٹوٹے گی کبھی
میں ترا خاکِ نشیں تو میرا سلطاں جاناں
کیا تماشہ ہو کہ خاموش کھڑی ہو دنیا
میں چلوں حشر میں کہتے ہوا جاناں جاناں
در پہ حاضر ہے ترے آج نصیرِ عاصی
تیرا مجرم، ترا شرمندہِ احساں جاناں