امریکہ کے نیم صیہونی افغان نڑاد سفارت کار زلمے خلیل زاد نے ’’مرشد‘‘ کی رہائی کا پروانہ جاری کیا ہے جس پر ملک بھر میں مرشد کا ’’کلٹ‘‘ شادیانے بجا رہا ہے۔ زلمے نے اپنے ٹویٹ میں رہائی کا حکم نہیں،مطالبہ جاری کیا ہے لیکن ملک بھر کے مرشدانے یعنی مرشد کے دیوانے اسے پروانے ہی کے طور پر لے رہے ہیں اور غل مچا رہے ہیں کہ اب تو مرشد باہر آوے ہی آوے۔
مرشدانے خوش تو ہیں لیکن کچھ کچھ شکوہ بھی کر رہے ہیں کہ زلمے نے صرف رہائی کا پروانہ جاری کیا ہے، پھر سے وزیر اعظم بنانے کا آرڈر نہیں دیا ہے۔ یہ حکم بھی جاری ہو جاتا تو مشن پورا ہو جاتا۔ چلئے،اس بار ادھوری لنگوٹی ہی سہی۔
زلمے دو سال قبل بھی متحرک ہوئے تھے اور بار بار مرشد کی رہائی کے پروانے جاری کئے تھے لیکن ، تب نہیں ہوئے تھے،اب الیکشن ہو چکے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت چکے ہیں جن کے وہ قریب بتائے گئے ہیں۔ زلمے اصل میں بش کے دور میں امریکی سفیر تھے اور ری پبلکن ہونے کے ناطے ٹرمپ کے بھی قریب ہیں۔ ٹرمپ کا قربت زدہ ہونے کے بعد سے زلمے صاحب اب نیم چڑھے بھی ہو گئے یوں ان کا پروانہ پہلے سے زیادہ موثر ہو گا، مرشدانے یہی کہہ رہے ہیں۔
______
زلمے افغانستان میں پیدا ہوئے پھر زمانہ طالب علمی میں امریکہ گئے اور وہیں کے ہو رہے۔ کبھی تعلق مسلمان گھرانے سے تھا۔ اب صہیونی گھرانے سے ہے۔ ان کی بیوی شرل بینرڈ Cheryl BENERD معروف صہیونی گھرانے کی ’’چشمہ و چراغہ‘‘ ہیں۔ یہی نہیں دونوں تعلیمی ادارے یونیورسٹی آف شکاگو میں زیر تعلیم رہے جہاں انہیں کٹر انتہا پسند صہیونی یہودی استاد پروفیسر البرٹ وول سٹیٹرWOHL STETTER نے خصوصی تعلیم و تربیت سے نوازا۔ اسی عرصے میں اسرائیل کے حق میں گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر بیرڈ صاحبہ کو کئی انعامات اور ایوارڈز ملے۔ اوپر زلمے کو نیم صہیونی اسی حوالے سے کہا گیا۔ دونوں میاں بیوی کے دو بیٹے ہیں اور دونوں کی نسبت باپ نہیں،ماں سے ہے۔ ایک کا نام الیگزینڈر بینرڈ، دوسرے کا میکسی ملین بینرڈ۔ دونوں بینرڈ ہیں۔ خلیل زاد ایک بھی نہیں۔ یہودی اپنی نسبت ماں سے کرتے ہیں، باپ سے نہیں۔
اس عرصے میں دونوں اسرائیلی سفارت خانے (واشنگٹن) کی ہر تقریب میں شرکت کرتے رہے۔ چنانچہ مقامی سیاسی حلقوں کی طرف سے زلمے کو’’زائنوسٹ پوڈل‘‘ Zionist Poodle کا خطاب بھی دیا گیا۔ معروف یہودی تھنک ٹینک ’’رانڈ‘‘ نے دونوں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئی کتابیں بھی لکھوائیں، زیادہ تر بینرڈ نے لکھیں۔ ان پر منی لانڈرنگ کا کیس بھی آسٹریا میں، چلا۔
______
اب جنوری میں ٹرمپ صدر بننے والے ہیں اور زائنوسٹ پوڈل کو امید ہے کہ انہیں کوئی نہ کوئی منصب ملے گا۔ پچھلی بار وہ دو مرتبہ سفیر رہے، اس بار وزارت کی امید ہے۔ جو بھی عہدہ ملے گا، دو ماہ بعد ملے گا لیکن انہوں نے اپنے موعودہ عہدے کا استعمال ابھی سے شروع کر دیا ہے اور پروانہ جاری کیا ہے جس پر پاکستان کے مرشدانے بطور خاص خوش ہیں۔
ادھر ریاست پاکستان کا عزم ہے کہ کسی پوڈل یا ان پوڈل کا پروانہ اور حکم نامہ قبول نہیں کیا جائے گا اور مرشدانوں کے مرشد کی مہمان داری اسی طور جاری رکھی جائے گی۔ پوڈل صاحب نے اپنے ٹویٹ میں مرشد کو بے گناہ قیدی قرار دیا ہے۔ جب پوڈل صاحب اپنے عہدے کا حلف، ڈیڑھ دو ماہ بعد، اٹھائیں گے تو اس سے پہلے ہی ان کا بے گناہ قیدی سزا یافتہ قیدی قرار دیا جا چکا ہو گا۔ سزا یافتہ قیدی کیلئے کیا ٹویٹ کیا جائے، پوڈل صاحب کو خاصا سر کھپانا پڑے گا۔
ادھر امریکہ کے معروف ترین خارجہ پالیسی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ نے کچھ اور ہی لکھا ہے۔ اس کی تازہ اشاعت کے ادارتی مضمون سا?تھ ایشیا بریف میں لکھا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم (مرشد) ممکنہ طور پر ٹرمپ کی ترجیحاتی فہرست میں شامل نہیں ہوں گے…افسوس کی بات ہے!
______
زلمے کے علاوہ مرشد کی رہائی کیلئے زلفی بخاری بھی سرگرم ہیں۔ انہوں نے سرگرمی ابھی شروع نہیں کی ہے لیکن ان کا یہ مطبوعہ اعلان سامنے آیا ہے کہ ان کے ٹرمپ کے اہل خانہ سے قریبی تعلقات ہیں، وہ مرشد کو رہا کرا کے دکھائیں گے۔
زلفی جو کہتے ہیں، کر دکھاتے ہیں۔ کچھ ماہ پہلے انہوں نے کہا تھا کہ وہ مرشد کو آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بنوا کر دکھائیں گے۔ پھر سب نے دیکھا کہ انہوں نے مرشد کو چانسلر بنوا کر ہی چھوڑا۔ آکسفورڈ کا نہ سہی، اڈیالے کا ہی سہی۔ چانسلر تو پھر چانسلر ہی ہوتا ہے چاہے کہیں کا ہو۔
اس سے دو سال پہلے زلفی بخاری نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ وہ ملک سے فرار ہونے والے ہیں اور ایسا وہ کر کے دکھائیں گے اور پھر انہوں نے کر کے دکھایا۔
ان کے ٹرمپ فیملی سے تعلقات ہیں۔ بڑے لوگوں سے تعلقات کی اہمیت کو ماننا چاہیے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے جب میں ایک اخبار کی ایڈیٹری کرتا تھا۔ اس دفتر کے ایک ڈرائیور سے رابطہ تھا جس کا دعویٰ تھا کہ اس کے (اس وقت کے) صدر پرویز مشرف سے قریبی تعلقات ہیں۔ ثبوت کے طور پر اس نے ایک تصویر دکھائی جس میں وہ ایک سڑک پر کھڑا تھا اور پیچھے ،کچھ فاصلے پر ایوان صدر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ان دنوں افتخار چوھری والی تحریک چل رہی تھی۔ تصویر دیکھنے کے بعد میں نے مذکورہ اہم تعلقات والے ڈرائیور کے احترام میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔ ہم سب کو زلفی بخاری کا خاطر خواہ احترام کرنا چاہیے۔
______
ٹرمپ کی آمد پر سوالات سے تنگ آ کر مرشد کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خاں چڑ گئیں اور بولیں، کیا ٹرمپ ہمارا ’’ابّا‘‘ لگتا ہے جو رہائی دلائے گا؟۔
اس سوال کا جواب ایوان صدر کے سابق مکین ڈاکٹر ڈینئل نے اپنے ٹویٹ میں دیا۔ ٹویٹ ٹرمپ کے نام تھا اور اس میں الیکشن کامیابی پر ٹرمپ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے طویل مبارکباد دینے کے بعد ٹرمپ کی عظمت کے طول طول قصیدے پڑھے گئے اور ان کے اوصاف حمیدہ درشدہ پر جی بھر کر روشنی ڈالی گئی اور پھر اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ ٹرمپ کی عظیم الشان، فقید المثال اور ولولہ انگیز قیادت میں امریکہ عظیم ملک بنے گا۔
گویا امریکہ فی الوقت عظیم ملک نہیں ہے۔ پھر اس میں مرشد کی رہائی کی بھیک مانگی گئی اور یہ اطلاع بھی دی گئی کہ ٹرمپ کی جیت سے دنیا بھر کے آمروں کی ٹانگیں تھر تھر کانپنا شروع ہو گئی ہیں
کیا ٹرمپ ہمارا ابّا لگتا ہے، یہ علیمہ خاں کا سوال تھا اور ڈاکٹر ڈینئل کا یہ قصیدہ بہاریہ غالباً علیمہ خاں کے اسی سوال کا جواب ہے۔ واللہ اعلم!