آئین پاکستان  کے تحت اظہار رائے کی آزادی کا حق  اور  پیمرا   اختیارات

پاکستان کے آئین میں تقریر اور صحافت کی آئینی آزادی کو نمایاں کیا گیا ہے۔پیمرا بین الاقوامی، قومی، صوبائی، ضلعی، اور مقامی یا خصوصی ہدف والے سامعین کے مقصد کے لیے قائم کی گئی پاکستان میں تمام نجی نشریاتی میڈیا اور تقسیم کی خدمات کے قیام اور آپریشن کو آسان بنانے اور منظم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ پاکستان کے آئین میں بنیادی حقوق کے آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 19A کے تحت  آئین پاکستان   پیمرا کو   اختیارات دیتا ہے کہ معلومات، تعلیم اور تفریح??کے معیار کو بہتر بنائیں۔  خبروں، حالات حاضرہ، مذہبی علم، فن، ثقافت، سائنس، ٹیکنالوجی، اقتصادی ترقی، سماجی شعبے کے خدشات، موسیقی، کھیل، ڈرامہ اور عوامی اور قومی دلچسپی کے دیگر موضوعات کے لیے میڈیا میں پاکستانی عوام کے لیے دستیاب انتخاب کو وسیع کریں۔  مقامی اور کمیونٹی کی سطح پر ذرائع ابلاغ تک لوگوں کی رسائی کو بہتر بنا کر نچلی جڑوں تک ذمہ داری اور طاقت کی منتقلی میں سہولت فراہم کریں۔ معلومات کے آزادانہ بہا میں اصلاح کے ذریعے احتساب، شفافیت اور گڈ گورننس کو یقینی بنائیں۔ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل  اور آزادی صحافت ہو گی، جو اسلام کی شان یا پاکستان کی سالمیت، سلامتی یا دفاع یا کسی بھی حصے کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کی گئی کسی بھی معقول پابندی سے مشروط ہو گی  اس میں  غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات، یا توہین عدالت، کمیشن  یا کسی جرم پر اکسانے کے سلسلے میں  آرٹیکل 19(A)  معلومات کا حق  ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق ہوگا ضابطے اور قانون کی طرف سے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع  آرٹیکل 19-19(A): بنیادی حقوق اور پالیسی کے اصول  اور حصہ دوم، باب 1  بنیادی حقوق  ماخذ  پاکستان  آئین  میں ہیں,پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) یا مقتدرہ ضابطہ برقی ذرائع ابلاغ پاکستان ایک آزاد اور آئینی طور پر قائم وفاقی ادارہ ہے جو میڈیا کلچر، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے قیام کے لیے چینل لائسنس کو باقاعدہ جاری کرنے کا ذمہ دار ہے۔ پیمرا وزارت اطلاعات کے ماتحت کام کرتا ہے، اس کا قیام یکم مارچ 2002 کو عمل میں لایا گیااس کیبانی چیئرمین میاں جاویدتھیاس کے بعد افتخار رشید,مشتاق ملک, ڈاکٹر عبد الجبار, رشید احمد, پرویز راٹھور, کمال الدین ٹیپو,ابصار عالم   چیئرمین تھے پوری دنیا کو فیک نیوز کا بڑا چیلنج درپیش ہے، اس چیلنجز پر قابو پانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔  پیمرا کے چیئرمین مرزا محمد سلیم بیگ  کی چیئرمین شپ میں بہت سے مسائل حل ہوئے جو دیگر محکموں کے لیے ایک مثال ہے۔محمد سلیم بیگ نے قومی میڈیا کو پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے اور قومی بیانیے کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن سہولت کی فراہمی کی ہے۔ پاکستان دشمن  قوتوں کے  بیانیے کا موثر جواب دیا ہے 7 اگست 2024 کو چیئرمین پیمرا نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔صدر مملکت آصف علی زرداری  کا کہنا تھا کہ کہ جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کی وجہ سے نئے چیلنجز درپیش ہیں جبکہ غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے حوالے سے ضابطہ اخلاق پر عمل ہونا چاہیے۔ ایوان صدر اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری سے چیئرمین پیمرا  کی ملاقات میں  مرزا محمد سلیم بیگ نے صدر کو پیمرا رپورٹ 23-2021 پیش کی۔  صدر آصف زرداری نے جعلی خبروں اور غلط معلومات کے پھیلا کی حوصلہ شکنی پر زور دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حقائق کی جانچ پڑتال، معلومات کی تصدیق کو کلچر فروغ دینا ہوگا، میڈیا معاشرے میں رواداری، اتحاد کے فروغ میں کردار ادا کرے اور صحافت کے اعلی ترین معیار کو برقرار رکھے۔ صدر مملکت نے جدید ٹیکنالوجی، انسانی وسائل سے پیمرا کی استعدادِ کار بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔ چیئرمین پیمرا نے صدر مملکت کو میڈیا منظرنامے کی ریگولیشن اور ترقی میں پیمرا کے کردار اور کارکردگی کے بارے میں آگاہ کیا تھاصدر مملکت آصف زرداری نے پیمرا کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ مرزا سلیم بیگ کو جون 2018 میں عبوری حکومت کے دوران اس عہدے پر تعینات کیا گیا  تھا انہیں جون 2018 کو چیئرمین پیمرا کے لیے تین امیدواروں کے ساتھ شارٹ لسٹ کیا گیا تھا جن میں دیگر میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ورکنگ جرنلسٹ اصغر علی مبارک بھی شامل تھے، یاد رکھیں کہ  سپریم کورٹ نے 29 جون، 2018 کو چیئرمین پیمرا کو تقرری کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ مرزا سلیم بیگ چیئرمین پیمرا تعینات ہونے سے قبل وزارت اطلاعات میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے یاد رہے کہ چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔   انہوں نے کہاتھا کہ  پیمرا ایک بے مثال اور موثر ریگولیٹری ادارہ بنے گا۔ تمام مسائل تمام فریقین کی باہمی مشاورت سے حل کیے جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا  ے  دیگر امیدواروں پر ان کی تقرری مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پیمرا کے سربراہ کے تقرری کے لیے طریقہ کار کی وضاحت کی  کہ حکومت کا خصوصی دائرہ اختیار تھا جب کہ صدر مذکورہ تقرری کی حتمی منظوری دیتے ہیں 
 کتاب  دوست چیئرمین پیمرا سلیم بیگ  کا کہنا ہے کہ کتاب سے دوبارہ رشتہ جوڑنے سے ہی قوم کا حال اور مستقبل بہتر ہوگا۔ انہوں نے یہ بات  کتاب میلے کے دوسرے دن دورے کے دوران کہی تھی۔سلیم بیگ نے کہا کہ اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ شہری کتاب اور قلم کو چھوڑ کر سنگ وخشت کے دیوانے ہو گئے ہیں۔کتاب جسم میں روح کی مانند ہے- اگر جسم سے روح نکال لی جائے تو اس کی اہمیت نہیں رہتی۔ انٹرنیٹ نے لوگوں کو کتابوں سے دور کیا ہے،لیکن جو لوگ کتاب کی اہمیت کو سمجھتے ہیں وہ اس کے بغیر خود کو نامکمل سمجھتے ہیں۔ پی ڈی ایف کتابیں کروڑوں کی تعداد میں انٹرنیٹ پر موجود ہیں مگر آج بھی کتب بینی زیادہ تر کاغذ پر شائع شدہ مواد ہی کی مرہون منت ہے۔ کتاب سے دوستی بہترین دوستی ہیچیلنجز پر قابو پانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔  
پیمرا (ترمیمی) ایکٹ 2007کے سیکشن 17کے تحت اتھارٹی ہر مالی سال کے لیے سالانہ مالیاتی رپورٹ شائع کرنے اور صدرِمملکت کو پیش کرنے کا پابند ہے۔رپورٹ جامع طور پر مالی سال 2015-2018کے دوران اتھارٹی کی کارکردگی کا ایک مکمل جائزہ تھی۔ سروے کے مطابق پاکستان میں 65فیصد ناظرین کیبل ٹی وی، 25فیصدٹیرسٹریل اور 9فیصد سیٹلائٹ ڈش کے ذریعے ٹی وی ٹرانسمیشن تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ پیمرا نے2018 تک مقامی سیٹلائٹ ٹی وی کیلئے 88لائسنس جاری کیے  تھے جن میں سے 37تفریحی، 26نیوزوکرنٹ افیئرز، 18علاقائی،4تعلیمی، 1صحت، 1کھیل اور ایک زرعی ٹی وی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 35غیرملکی چینلز کو لینڈنگ رائٹ پرمیشن بھی دی گئی تھی۔ اسی طرح 4,060کیبل ٹی وی، 6ایم ایم ڈی ایس، 4آئی پی ٹی وی، 5موبائل ٹی وی اور ایک موبائل آڈیولائسنس جاری کیے گئے تھے  رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک میڈیامیں سرمایہ کاری کے لیے نئے راستے کھلے تھے۔
ایک محتاط تخمینہ کے مطابق 2002 سے 2018 تک الیکٹرانک میڈیاسیکٹر کے مختلف شعبوں میں 7ارب امریکی ڈالرکی مجموعی سرمایہ کاری دیکھی گئی تھی اور پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کو روزگار بھی ملاتھا  یہ سرمایہ کاری مزید بڑھی اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ دوسرے کاروبار جیسے پروڈکشن ہاو?سز، ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں، موسیقی اور پرفارمنگ آرٹس کیلئے نئی جہتوں کو جنم د یاتھا  پیمرا رپورٹ کے مطابق عملی سرگرمیوں میں الیکٹرانک میڈیا ضابطہ? اخلاق کی خلاف ورزی پرمختلف ٹی وی چینلز کو618 اظہارِ وجوہ کے نوٹسزاور انتباہ جاری کیے گئے تھے اور سز ا کے طور پر 25پروگراموں /اشتہارات پر پابندی عائد کی گئی ہے،13ٹی وی چینلزکے لائسنس معطل اور 106.53ملین روپے جرمانہ عائد کیا گیاتا۔پیمرا نے اس عرصہ کے دوران 18,494کیبل ٹی وی نیٹ ورکس کا معائنہ کیا تھااور1,967سسٹم ضبط کیے گئے اور 13.656ملین روپے جرمانہ عائد کیا گیاتھا۔ کیبل نیٹ ورک پر 80کے قریب مختلف غیر ملکی چینلز بند کر دیے گئے تھیجو کہ غیر قانونی طور پر نشر کیے جا رہے تھے۔ پیمرا انفورسمنٹ ٹیموں نے ایف آئی اے اور کسٹم انٹیلی جنس کے تعاون سے 11,651غیرقانونی انڈین ڈی ٹی ایچ اور سی لائن (C-Line) کے آلات ضبط کیے تھے،اس غیر قانونی سامان کو ذخیرہ کرنے والے 386گودام بند کیے گئے تھے،اور اس غیر قانونی سامان کے 13 اسمگلروں کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئی تھی, آج کے دور میں الیکٹرانک میڈیا پاکستان میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی اور مسابقتی شعبوں میں سے ایک ہے یہ رپورٹ قارئین کوپاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں پیمرا کی کارکردگی، اقدامات، ریگولیٹری چیلنجز اور ابھرتے رجحانات اور ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گی۔ چیئرمین پیمرا، محمد سلیم  نے گورنمنٹ کالج لاہور میں پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کی۔ پیمرا کا قیام صدر مشرف کے دور میں 2000 میں شروع کیا گیا تھا۔ ریگولیٹری اتھارٹی فار میڈیا براڈکاسٹ آرگنائزیشنز  کی تشکیل کے ذریعے جس کو معلومات، تعلیم اور تفریح??کے معیار کو بہتر بنانے کا پابند بنایا گیا تھا۔ خبروں، حالات حاضرہ، مذاہب کے علم، فن، ثقافت، سائنس، ٹیکنالوجی، اقتصادی ترقی، سماجی شعبے کے خدشات، موسیقی، کھیل، ڈرامہ اور عوامی اور قومی مفاد کے دیگر موضوعات کے لیے میڈیا میں پاکستانی عوام کے لیے دستیاب انتخاب کو وسعت دینا؛ مقامی اور کمیونٹی کی سطح پر ذرائع ابلاغ تک رسائی کو بہتر بنا کر نچلی جڑوں تک ذمہ داری اور طاقت کی منتقلی کو آسان بنانا؛ اور آخر میں، معلومات کے آزادانہ بہا کو بہتر بنا کر احتساب، شفافیت اور اچھی حکمرانی کو یقینی بناناہے 
بہت سے جمہوریت نواز مہم چلانے والے اس چار نکاتی مینڈیٹ کو جمہوریت کے عمل اور جامع میڈیا لبرلائزیشن کی حمایت کرنے والی ایک مضبوط بنیاد سمجھتے ہیں۔ تاہم، میڈیا پریکٹیشنرز کے درمیان عمومی رائے یہ ہے کہ پیمرا صرف لائسنس جاری کرنے والے دفتر کے طور پر کام کرتا ہے جس نے براڈکاسٹرز کے لیے ریگولیٹری رکاوٹوں کو نافذ کیا ہے۔   پیمرا قوانین کو مشرف حکومت نے میڈیا پر قابو پانے کی کوششوں میں استعمال کیا۔ ان قوانین کا استعمال کرتے ہوئے کچھ سٹیشنوں کو بند کر دیا گیا  تاہم، میڈیا کارکن اب بھی 12 رکنی کمیٹی کی تشکیل سے مطمئن نہیں  جہاں وہ خود میڈیا سے زیادہ نمائندگی کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ٹی وی اور ریڈیو کا ریگولیشن اسٹیک ہولڈرز کی شرکت اور نمائندگی کے ذریعے ہونا چاہیے۔ جو ہونا چاہیے وہ پیمرا کے بورڈ کی تنظیم نو کے لیے آزاد نامور لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے 
  بہت سے میڈیا پریکٹیشنرز نے تصدیق کی کہ مشرف دور میں پیمرا قوانین کا اتنا سخت استعمال گزشتہ سالوں میں نہیں ہوا تھا۔ پیمرا بورڈ کو کسی حد تک از سر نو تشکیل دیا گیا ہے اور اس میں میڈیا کے کچھ پیشہ ور افراد بھی شامل ہیں۔ مزید برآں، حکومت اپنی میڈیا ریگولیشن اصلاحات میں کچھ جمہوری اصولوں کو دوبارہ متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیمرا کی جانب سے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کو صنعت کاروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اب حکومت اس کا جائزہ لے رہی ہے۔ سابق وزیر اطلاعات نے پاکستانی براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن سے درخواست کی   کہ وہ پیمرا کے موجودہ ضابطہ اخلاق کو تبدیل کرنے کے لیے ایک نیا ضابطہ اخلاق تیار کرے  اس معاملے پر پیمرا حکام کی جانب سے کسی حد تک اوپر سے نیچے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔  اس وقت بہت سے ضابطہ اخلاق موجود ہیں جن میں سے ایک PFUJ، ایک ساتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن  اور براڈ کاسٹر دوسرے کو وضع کرنے کے عمل میں ہیں۔پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو حکومت نے ایک اوپن میڈیا پالیسی ریفارم کے تحت  فروغ اورمضبوط کیا گیا   پیمرا کا قیام صدر مشرف کے دور میں 2000 میں شروع کیا گیا  ریگولیٹری اتھارٹی فار میڈیا براڈکاسٹ آرگنائزیشنز  کی تشکیل کے ذریعے  معلومات، تعلیم اور تفریح??کے معیار کو بہتر بنانے کا پابند بنایا گیا۔ خبروں، حالات حاضرہ، مذاہب کے علم، فن، ثقافت، سائنس، ٹیکنالوجی، اقتصادی ترقی، سماجی شعبے کے خدشات، موسیقی، کھیل، ڈرامہ اور عوامی اور قومی مفاد کے دیگر موضوعات کے لیے میڈیا میں پاکستانی عوام کے لیے دستیاب انتخاب کو وسعت دینا؛ مقامی اور کمیونٹی کی سطح پر ذرائع ابلاغ تک رسائی کو بہتر بنا کر نچلی جڑوں تک ذمہ داری اور طاقت کی منتقلی کو آسان  بنایا گیا   اور معلومات کے آزادانہ بہا کو بہتر بنا کر احتساب، شفافیت اور اچھی حکمرانی کو یقینی  بنایا گیا   عمومی رائے یہ ہے کہ پیمرا صرف لائسنس جاری کرنے والے دفتر کے طور پر کام کرتا ہے جس نے براڈکاسٹرز کے لیے ریگولیٹری رکاوٹوں کو نافذ کیا ہے  تاہم حکومت پر ان قوانین میں ترمیم یا منسوخی کے لیے دبا ہے بہت سے میڈیا پریکٹیشنرز نے تصدیق کی کہ مشرف دور میں پیمرا قوانین کا اتنا سخت استعمال گزشتہ سالوں میں نہیں ہوا تھا۔

ای پیپر دی نیشن