واہ کینٹ(امجد شیخ ،نمائندہ نوائے وقت)اعلی سطح پر تحقیق کا معیار اوج ثریا تک نہ لے جایا گیا تو ہم پہلے جمود پھر پستی کا سفر شروع کر دیں گے۔ المیہ یہ ہیکہ ہمارے بیش تر ریسرچ سکالرز معیار کے بجائے ریسرچ پیپرز کی تعداد بڑھانے کے لیئے کوشاں ہیں،ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہر تعلیم،نامور ماہر ریاضی، تحقیق دان اور اعلی پائے کے استاد سید محسن عباس شاہ نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے بتایا کی کئی بیرونی ممالک میں استاتذہ بھی دو یا تین ریسرچ پیپر لکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں اسے بڑا استاد سمجھا جاتا ہے جس کے ریسرچ پیپرز کی تعداد زیادہ ہوتی یے اس رجحان پر بند نہ باندھا گیا تو عالمی سطح پر ہماری تحقیق کی وقعت کم ہو کر ختم ہو جائے گی۔اسی موضوع کے تسلسل میں سید محسن عباس شاہ نے بتایا کہ تحقیقی کام کے غیر معیاری ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں طالب علم کو ایم ایس اور پی ایچ ڈی لیول پر تحقیق کا طریقہ بتایا جاتاہے حالانکہ اس نالج کی شروعات سکینڈری لیول سے ہونی چاہیے کئی ریسرچ سکالرز اسی وجہ سے اپنا ریسرچ ورک مکمل نہیں کر پاتے یا غیر معیاری کام کرتے ہیں کہ انہیں اچانک اور دیر سے تحقیق کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ریاضی کے سکوپ اور طلبہ کی اس مضمون میں دلچسپی کے متعلق سید محسن عباس شاہ کا کہنا تھا کہ ریاضی ایک لازمی سبجیکٹ ہیاور دیگر مضامین کے ساتھ اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے خاص طور پر کیمپوٹر سائنس میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طلبہ اس مضمون کو بطور پروفیشن نہیں اپناتے مگر اس رجحان میں ان کا قصور نہیں یہ اساتذہ کا کام ہے کہ وہ طلبہ کی ریاضی کے ساتھ محبت پیدا کریں میرے علم میں کہ بہت سے میتھ ایکسپرٹ بڑے ریسرچ اداروں میں اعلی عہدوں پر کام کررہے ہیں۔محسن عباس شاہ نے بتایا کہ طلبہ کی زیادہ تعداد میڈیکل اور کمپیوٹر سائنس میں داخلہ لے رہی ہے انجنیرنگ میں داخلہ لینے کا گراف کم ہوا ہیاس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ والدین کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ان شعبوں میں پڑھائی کی تکمیل کے بعد ان کا بیٹا یا بیٹی زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں آج کے اور پرانے کے اساتذہ اور طلبہ کا موازنہ کرتے ہوئے سید محسن عباس شاہ نے بتایا کہ آج کا استاد بہت زیادہ پروفیشنل ہوگیا ہیاس کی خواہش ہوتی ہے کہ جن طلبہ کو وہ کالج یا سکول میں پڑھاتا ہے وہ شام کو اسکی اکیڈمی بھی جوائن کریں،پرانے دور کا استاد بہت ہی مخلص تھا اس نے علم کے بدلے پیسہ کمانے کی کبھی کوشش نہیں کی اس کا کوئی طلب علم کسی اعلی عہدے پر فائز ہوتا تو والدین سے زیادہ استاد کو خوشی ہوتی،یہی وجہ ہے کہ طلبہ اپنے استاتذہ کی عزت والدین کی طرح کرتے لیکن جب سے استاد پروفیشنل ہوا ہے طلبہ کے رویوں میں بھی فرق آ یا ہے۔سید محسن عباس شاہ نے بتایا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت سکلز بیسڈ نالج کی ہے تاکہ طلبہ تعلیم کے ساتھ اپنے علم اور ہنر میں بھی اضافہ کرسکیں اور تعلیم وہنر کی تکمیل کے بعد اپنی مالی ضروریات بھی پوری کر سکیں۔