افغانستان کے وزیر اخلاقیات نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ خواتین کو باہم گفتگو کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا کہ افغانستان کی خواتین کو بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
وزارت برائے پروپیگیشن آف ورچو اور پریوینشن آف وائس کے وزیر محمد خالد کی آڈیو ریکارڈنگ میں بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس نے حالیہ ہفتوں میں خواتین پر دوسری خواتین کی آوازیں سننے پر پابندی کی اطلاع دی تھی۔پی وی پی وی' کے ترجمان سیف الاسلام خیبر نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے آڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا 'یہ رپورٹس غیر منطقی ہیں۔ خواتین باہم گفتگو کر سکتی ہیں اور یہ معاشرے کی ضرورت ہے کہ خواتین باہم گفتگو کریں۔'سیف الاسلام خیبر نے مزید کہا 'اسلامی قوانین کے مطابق استثنیٰ موجود ہیں کہ فقہ حنفیہ میں خواتین کو اگر دوران نماز کوئی بات کہنی ہو تو آواز اونچی کرنے کے بجائے ہاتھ کے اشارے سے بات کر سکتی ہیں۔'افغانستان میں عوامی مقامات پر خواتین کو شاعری سنانے سے منع کیا گیا ہے۔ 'خرابی و فضیلت' کے قانون کے تحت ضابطوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ جس میں یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ خواتین کو گھر سے باہر اپنی آوازوں کو آہستہ رکھنا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ان کے جسم کا چھپا ہونا ضروری ہے۔ نیز افغانستان کے بعض صوبوں میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو نشریات میں خواتین کی آوازوں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے