امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے نو منتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے قتل کی مبینہ منصوبہ بندی کے الزام میں ایرانی پاسداران انقلاب سے وابستہ ایک شخص کی گرفتاری کے اعلان کے بعد تہران نے اس معاملے سے مکمل لا تعلقی کا اعلان کیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ہفتے کے روز ایک بیان میں زور دے کر کہا کہ اس طرح کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں انہوں نے کہا کہ "یہ الزامات کہ ان کا ملک سابق یا موجودہ امریکی عہدیداروں کو نشانہ بنانے والے قاتلانہ حملے میں ملوث تھا ایک مکروہ سازش ہے"۔انہوں نے کہا کہ"امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ کرنے کے لیے اس کے پیچھے صہیونی حلقوں کا ہاتھ ہے"۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تہران "اپنے عوام کے حقوق کے حصول کے لیے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تمام جائز اور قانونی ذرائع استعمال کرے گا"۔
افغان شہری کی بھرتی
جمعہ کو امریکی محکمہ انصاف نے اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن پولیس نے ایک افغان شخص کو گرفتار کیا ہے جسے پاسداران انقلاب نے ٹرمپ کے قتل کے منصوبے کو انجام دینے کے لیے بھرتی کیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ملزم کا نام فرہاد شاکری ہے۔ اس نے قانون نافذ کرنے والے حکام کو بتایا کہ اسے سات اکتوبر 2024ء کو ٹرمپ کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی"۔لیکن ساتھ ہی اس نے وضاحت کی کہ 51 سالہ شاکری کم عمری میں امریکہ آیا تھا جہاں اس پر چوری کا الزام عاید کیا گیا اور 2008ء میں اسے ملک بدر کرنے کی سزا دی گئی تھی۔نیویارک کے دو رہائشی کارلیسل رویرا اور جوناتھن لوڈہولٹ جن سے شاکری نے جیل میں ملاقات کی تھی پر نیویارک میں ایرانی نژاد امریکی شہری کے قتل کی منصوبہ بندی میں مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ گذشتہ 13 جولائی کو ٹرمپ کو ایک بندوق بردار نے قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا تھا جو پنسلوانیا کے شہر بٹلر میں ایک آؤٹ ڈور انتخابی ریلی میں جمع ہونے والے ہجوم کے درمیان چھت پر چڑھ گیا تھا۔تاہم واقعہ میں ٹرمپ کے کان میں معمولی زخم آیا۔ پولیس نے ندوق بردار پر فائرنگ کرکے اسے ہلاک کردیا تھا۔گذشتہ ستمبر میں اسے فلوریڈا میں ایک دوسرے قاتلانہ حملے کا نشانہ بھی بنایا گیا جہاں سکیورٹی اہلکاروں نے ایک مسلح شخص کو اپنے گولف کورس کے گرد گھومتے ہوئے دیکھا۔