چاند

تنویر حسین ۔۔۔
پاکستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے کہ جہاں ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ پانی کا مسئلہ ‘ بجلی کا مسئلہ ‘ آٹے کا مسئلہ‘ چینی کا مسئلہ‘ جس طرح ہم اپنے سر کے بالوں اور آسمان کے تاروں کو گننے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان کے مسائل کو گننے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اپنے بچپن کا زمانہ یاد ہے کہ ہم روزانہ مزدوروں کی طرح روزہ رکھنے جاتے تھے اور روزہ کھولنے کے بعد گھر والوں سے کہتے کہ ہمارے اتنے روزے ہو گئے ہیں۔ روزوں کے اختتام پر لوگ اپنی اپنی چھتوں پر چڑھ کر چاند دیکھتے اس دور کا چاند بڑا وفادار‘ ملنسار‘ روزہ داروں کا طرف دار اور وقت کا پابند تھا۔ وہ اپنا پتہ خود بتا دیتا تھا اور یہ ہر گز نہیں سوچتا تھا کہ ” میرے پتے سے لوگوں کو کیوں ”میرا گھر“ ملے ہمارے صاف شفاف ذہن کی سکرین پر صرف یہ الفاظ موجود ہوتے تھے۔ پہلے روزے رکھیں گے۔ پھر چاند چھت پر دیکھیں گے ساری رات اپنے نئے کپڑے تکیوں کے نیچے رکھ کر جاگتے رہیں گے۔ اس دور میں آسمان اپنی مرضی سے نیلے رنگ کا ہوتا تھا‘ رکشوں‘ بسوں اور ٹرکوں کے دھوئیں سے نیلا نہیں ہوتا تھا اور چاند بھی بروقت نظر آنے کے لئے پوری منصوبہ بندی کر لیتا تھا اور روزہ داروں سے یہ نہیں کہتا تھا کہ
اپنی آنکھیں اگلے دن تک اٹھا رکھئے۔ چاند سے ہمیں سارا سال ایک ہی تو کام پڑتا تھا کہ اسے دیکھ کر عید کر لیتے تھے۔ جب ہم بڑے ہوئے تو مردان کے چاند نے مہنگائی کی طرح پہلے بازار میں آنا شروع کر دیا۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ مردان کے لوگوں کی بینائی اتنی تیز ہے کہ وہ اسے قبل از وقت دیکھ لیتے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ چاند نے پورے پاکستان کو غچے دینے شروع کر دئیے۔ کہیں سے نکلتا تھا اور کہیں سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ پھر اس پر ریسرچ شروع ہو گئی۔ پوری رویتِ ہلال کمیٹی وجود میں آ گئی۔ چاند کی نفسیات تک کا مطالعہ شروع ہو گیا۔ پاکستان میں ایک مسئلے کا اضافہ ہو گیا۔ اب چاند بھی ایک مسئلہ ہے۔ جس طرح پاکستان بہت بحرانوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر سال چاند کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ بہت سے علماءچاند کی بدولت ایک دوسرے سے روٹھ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھر سے آنے والی سویوں کو واپس لوٹا دیتے ہیں۔
چاند کا دیکھنا ایک شرعی مسئلہ ہے اور ہمارے علماءحضرات کی اس مسئلے پر گرفت بھی بڑی مضبوط تھی بلکہ اس موضوع پر علماءکی اجارہ داری تھی۔ رفتہ رفتہ یہ چاند شعراءحضرات کے ہاتھوں میں کھیلنے لگا۔ شعراءنے چاند کے موضوع پر ایسی طبع آزمائی کی کہ ہر شاعر کا چاند دور سے پہنچانا جانے لگا اب چاند کا موضوع علماءحضرات کے قبضہ¿ قدرت سے نکل کر مزاح نگاروں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے ہر سال چاند کے حوالے سے بہت سے مزاحیہ اشعار تخلیق ہوتے ہیں۔ کالم نگار‘ چاند کے مسائل پر خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے پ±رمغز اور چاند کی طرح خوبرو کالم معرض وجود میں آتے ہیں۔ ذمہ دار غیر ذمہ دار چاند چڑھانے کے بجائے چاند دیکھنے پر توجہ مرکوز رکھیں تو آئندہ ایک ہی عید ہوسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...