”پڑھتا جا! شرماتا جا!“

Oct 09, 2009

سفیر یاؤ جنگ
عبدالرشید غازی................
لاکھوں قربانیوں اور اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے وطن عزیز میں امریکی مداخلت ملکی سالمیت کے لئے خطرہ بن کر رہ گئی ہے اور موجودہ وقت میں سفارت خانے کی توسیع کی آڑ میں امریکی سرگرمیاں مزید تیز ہو گئی ہیں نیز امریکی میرنز کی پاکستان آمد بارے شکوک وشبہات بڑھ رہے ہیں، اصل میں امریکہ پاکستان کو افغانستان سے منسلک کر کے پاکستان کے لئے آسانی سے وسائل حاصل کرنے کا جو دعویٰ کر رہا ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اگرچہ امریکہ نے بلیک واٹر کی سرگرمیوں بارے تردید کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے اور اس وقت عالمی طاقتیں پاکستان کی سلامتی کے درپے ہو چکی ہیں، پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی توسیع اور پی سی ہوٹل کی خریداری کے حساس معاملات پر ہر محب وطن شہری تشویش میں مبتلا ہے، اسلام آباد میں امریکی سفارتی عملے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی گھر کرائے پر حاصل کرنا اور ضروریات کے مطابق سفارت خانے میں توسیع کرنا ہماری خودمختاری پر حملے کے مترادف ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ اور دیگر پاکستان و اسلام دشمن طاقتوں پر بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ موثر حکمت عملی وضع کی جائے اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں بلیک واٹر کی موجودگی کا اعتراف کر لیا گیا ہے اس کے لئے آنے والے غیر قانونی اسلحہ کا بڑا ذخیرہ بھی پکڑا گیا ہے، جس کے بعد حکومت نے واضح کیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری بیرونی دورہ کے فوراً بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتی مشن کا اہم اجلاس بلائیں گے اس اجلاس میں سفارتی پروٹوکول کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں اور ملک میں امریکی سفارت کاروں اور شہریوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا وہ اجلاس ابھی تک نہیں ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ حکومتی خاموشی سے کئی سوالات ابھر رہے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کروا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، وطن عزیز پرویز مشرف دور سے ہی بدامنی کا شکار ہے جس سے نکلنے کا واحد راستہ امریکی اتحاد سے الگ ہونا ہے۔ ملک کی سالمیت اور استحکام کے لئے شدید خطرہ امریکی تنظیم بلیک واٹر ہے جس نے پشاور میں اپنا مرکز قائم کر لیا ہے۔ یہ تنظیم جس پر عراق میں کئی جنگی جرائم کے مقدمات قائم ہو چکے ہیں کیونکہ انکوائری سے ثابت ہوا کہ مذکورہ تنظیم کے ذمہ داروں نے عراق سے اسلحہ سمگل کر کے کردوں کے گروہوں کو فراہم کیا اور شگاگو سمیت کیلے فورنیا میں اس کی تربیتی مراکز موجود ہیں اور اس کی کارستانیاں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ سوہان روح بات یہ ہے کہ سیکورٹی فراہم کرنے کی آڑ میں یہ تنظیم پاکستان میں قتل وغارت، بدامنی اور سمگلنگ کی مذموم اور مکروہ سرگرمیاں شروع کر سکتی ہے حتیٰ کہ بعض حلقوں کے مطابق بین الاقوامی شہرت یافتہ نامور ایٹمی سائنس دان عبدالقدیر خان کو امریکہ اب بھی ایٹمی پھیلاو¿ کے لئے خطرہ تصور کرتا ہے اس لئے مذکورہ سائنس دان کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ”را“ اور ”موساد“ انتہا پسندوں کو فنڈز اور اسلحہ فراہم کر رہی ہے جس پر حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے، محض امریکی امداد کے بدلے حکومت کی طرف سے ملکی سلامتی کا سودا کرنا کسی طرح بھی سود مند نہیں ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان میں اراضی حاصل کرنے کا مقصد جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں بڑے پیمانے پر قتل عام، خونریزی اور تخریب کاری کا مشن پورا کرنا ہے اور اسی سلسلہ میں مبینہ طور پر بارہ ارب ڈالر کا بجٹ بھی رکھا گیا ہے کیا سرزمین پاکستان کا دس لاکھ ایکڑ رقبہ سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کودینے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا؟ اور بیرون ملک کو سرکاری اراضی پٹہ پر دینے کے کیا مضمرات ہیں؟ حکمرانوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی مثال سے عبرت حاصل کرنی چاہئے، بہرحال حکومت کی طرف سے امریکہ، سعودی عرب اور چین کو اراضی فراہم کرنا پوری قوم کے لئے باعث تشویش ہے اس لئے حکومت کو من مانے فیصلے کرنے سے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اور بالخصوص پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہئے کیونکہ وفاقی دارالحکومت میں امریکی سفارت خانہ کو اضافی رقبہ فراہم کرنے اور وسعت دینے پر کروڑوں عوام میں تحفظات پائے جاتے ہیں جس کا ازالہ ضروری ہے کیونکہ پاکستانی قوم کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اس ملک کو ”غیروں“ کے حوالے کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیگی کہ جس کی بنیادوں میں ہمارے آباو¿اجداد کا خون شامل ہے۔
مزیدخبریں