ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویو میں پرویز مشرف نے کہا کہ نوازشریف اور ان کی پارٹی طالبان کے بارے میں ہمدردی رکھتے ہیں ۔ سابق صدر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ان کے دور میں جہاد کشمیر کے لیے عسکریت پسندوں کوتربیت دی گئی ، بلکہ وہ ڈپلومیسی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے ۔ پرویز مشرف کے بقول بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ان کے چار نکاتی فارمولے سے اتفاق کرلیا تھا ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جماعت الدعوۃ کو ہینڈل کرنا آسان کام نہیں ، حافظ سعید اور ان کی تنظیم کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے متعلق سوال پر سابق صدر کا کہنا تھا عدلیہ کے ساتھ مس ہینڈلنگ کی وجہ سے ان کی مقبولیت کم ہوئی ، جس پر انہیں افسوس ہے ۔ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ این آراو جاری کرنا ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی ۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ انہیں مزید پانچ سال آرمی چیف رہنا چاہیے تھا ۔ پرویز مشرف نے تجویز دی کہ ملکی پالیسیوں میں فوج کی رائے کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے ۔