پیر سید شاہ عبدالحق گیلانی کا احیائے خانقاہ گولڑہ

Oct 09, 2012

پروفیسر سید اسراربخاری

خانقاہی نظام نے پورے عالم اسلام میں وہ قلعے فتح کئے جو بڑے بڑے فاتحین کے نصیب میں نہ آسکے‘ قائداعظمؒ نے کہا تھا پاکستان اسی روز وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا‘ یہ پہلا شخص کون تھا اور اسے کس نے مسلمان کیا تھا‘ گویا صوفیہ کرام نے کفرکدہ ہند میں کچھ اس انداز سے صدائے لاالہ الااللہ بلند کی کہ اس خطے میں یہ امکان پیدا کر دیا جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے‘ اگر خانقاہ نشین جوق در جوق یہاں امن و آشتی اور اعلیٰ کردار جیسی کرامت دکھا کر یہاں کی تمام تر غیر مسلم آبادی کو مسلمان نہ بناتے تو یہ پاکستان کا وجود کیونکر عمل میں آتا۔
گولڑہ شریف انہی خانقاہوں میں سے ایک بلند قامت درگاہ ہے‘ جہاں پیر سید مہر علی شاہؒ نے علم و عمل کے وہ چراغ روشن کئے کہ پورا وطن تو کجا بھارت بھی ضیا بار ہے‘ پیر مہر علی شاہؒ ابوالوقت صوفی تھے اور ان کی ذات میں علم و عمل صالح کی ہما لائیں یکجا تھیں۔ وہ نہ ہوتے تو یہاں کی اکثر آبادی قادیانیت کے فتنے سے بچ نہ پاتی۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹے حضرت با¶ جیؒ کو کئی بار یہ تلقین کی تھی کہ میرے اس پوتے عبدالحق کا خاص خیال رکھنا‘ یہ معرفت کا قلزم ہے مگر خاموش ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پیر سید عبدالحق گیلانی جو موجودہ سجادہ نشین ہیں‘ وہ حالت استغراق میں ہیں اور سرمدی الوہی کیفیات سے شادکام ہو رہے ہیں۔ وہ انتہائی کم گو ہیں‘ ایک گہری خاموشی جو دراصل گویائی ہے ان پر طاری ہے‘ سچ کہا تھا رومیؒ نے
سرمن ازنالہ من دور نیست
لیک چشم و گوش را آں نور نیست
میرا راز دروں میری آہ نیم بشی سے دور نہیں لیکن آنکھوں اور کانوں میں اسے پانے کی صلاحیت ہی نہ رہی)
کسی صوفی کی سب سے بڑی کرامت اس کا شریعت مطہرہ سے سرمو انحراف نہ کرنا ہوتا ہے اسی لئے اقبال بھی گویا تھے
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ہر دور میں اصل اور نقل‘ خیر اور شر کا وجود رہا ہے‘ آج بھی ہے اگر رسول اللہ جیسے دانائے سبل عقل کل موجود تھے تو مسیلمہ کذاب بھی تھا‘ وہ بھی حیران کن شعبدے دکھاتا تھا‘ بلکہ اس نے قرآن حکیم کے متوازی اپنا قرآن بھی گھڑ لیا تھا اور بعض لوگ اس کے پیروکار بھی تھے‘ اسی طرح اولیاءاللہ کی صف میں ہر دو اصناف ہر عہد میں موجود رہی ہیں‘ ایک وہ جو راہ حق پر جادہ پیما ہیں دوسرے وہ جو خرقہ سالوس پہنے خلق خدا کو شیطنت کی طرف مائل کرتے ہیں مگر ہمارے پاس قرآن حکیم کی صورت میں ایسا محک اور کسوئی موجود ہے کہ اس پر پرکھ کر ہم قبلہ اور قبلہ نما کا تعین کر سکتے ہیں اور جھوٹ سچ میں تمیز کر سکتے ہیں اگر ایک پڑھا لکھا ڈبہ پیر کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو اس کو اپنی تعلیم و تربیت کو پرکھ لینا چاہئے‘ جیسے اللہ جل شانہ نے فرمایا: نماز فحاشی و مکروہات سے روکتی ہے اگر نماز کے بعد بھی کوئی نہ رکے تو اسے اپنی نماز کا جائزہ لے لینا چاہئے کہ سقم کہاں ہے۔ ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اللہ کے خاص بندے آج بھی ہم میں موجود ہیں‘ اور پہچانے جا سکتے ہیں گولڑہ شریف خانقاہ ہی نہیں علوم و فنون کی اعلیٰ درسگاہ بھی ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ سجادہ نشین حضرت پیر سید شاہ عبدالحق گیلانی اپنے عظیم دادا پیر سید مہر علی شاہؒ اور والد ماجد حضرت با¶ جی کے نقش قدم پر ہیں ان کے بارے ان کے دادا کا یہ کہنا بہت کچھ کہہ رہا ہے کہ میرا یہ پوتا عبدالحق مادر زاد ولی ہے۔ جن لوگوں کو مرد حق کی تلاش ہے وہ ان سے فیض پائیں۔ ان کو دیکھیں بھالیں اور بہت کچھ پا لیں کیونکہ یہ جہان ناپائیدار ہے یہاں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ
قرص خورشید در سیاہی شد
یونس اندر دہان ماہی شد
موجودہ سجادہ نشین نے قدیم علمی درسگاہ جامعہ عباسیہ بہاولپور سے دینی فضیلت حاصل کی‘ ان کے اساتذہ میں سے یوں تو سبھی شمس و قمر تھے لیکن حضرت غلام محمد گھوٹویؒ جو علم صرف و نحو میں وقت کے سیبویہ تھے‘ سے تعلیم پائی‘ آج وہ جامعہ عباسیہ نہیں رہا‘ اس کی جگہ ایک جدید انداز کی یونیورسٹی نے لے لی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ صرف بہائی سے اقلیدس تک پڑھانے والے اساتذہ آج بھی وہاں ہوتے اور ملک کو نقد علماءدینے کا یہ عظیم ادارہ قائم رہتا۔ لیکن کیا کیجئے‘ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ گولڑہ شریف کی خانقاہ کی وحدة الوجود کے حوالے سے بڑی شہرت رہی‘ پیر مہر علی شاہؒ خود الفتوحات المکیة اور فصوص الحکم کا درس خواص کو دیا کرتے اور ردقادیانیت میں وہ علمی شہ پارے چھوڑ گئے جن کا جواب آج بھی ان کے حریف اہل علم کے پاس نہیں جیساکہ حکیم نور الدین کے پاس نہ تھا۔ گولڑہ کی درگاہ ردقایانیت کے لئے ایک علامت اور برہان قاطع ہے۔ وہاں جانے والے یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں کہ خانقاہ گولڑویہ کی تاریخی خدمات کیا ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ سجادہ نشین اپنے ہاں گولڑہ شریف میں پورے ملک سے ہر فن کے اجل علماءدین یکجا کریں اور جامعہ عباسیہ بہاولپور کا احیاءکر دیں۔ اور اس میں معتقدات کے حوالے سے ایک الگ مخصوص سیل قائم کریں‘ جس میں علم کلام کے ماہرین بتا سکیں کہ عقلی و علمی حوالے سے صحیح عقائد کیا ہیں۔ اور عصری سوالات کے عقلی جوابات کیا ہیں۔

مزیدخبریں