”عمران خان آپ بیچتے کیا ہیں؟“

 سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ، عمران خان کا امن مارچ، ہر لحاظ سے پُر امن رہا۔ گو،یہ امن مارچ اپنی منزلِ مقصود پر نہیں پہنچ سکااور جنوبی وزیرستان کے دروازے پر دستک دے کر ہی واپس آگیا، لیکن قومی اور عالمی مِیڈیا کے ذریعے، عالمی برادری تک اہلِ پاکستان کا یہ پُر امن احتجاج پہنچ گیا کہ۔ ”ڈرون حملے بند کئے جائیں“ ۔پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں نے ڈرون حملے رُکوانے کے لئے قرار دادیں منظور کرنے میں یکجہتی کا مظاہرہ بھی کیا، لِیکن ڈرون حملے جاری رہے۔ اُدھر امریکی ذرائع ابلاغ کی طرف سے بار بار یہی کہا گیا کہ ”ڈرون حملے حکومتِ پاکستان کی اجازت اور رضا مندی سے کئے جا تے ہیں۔“ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں سرگرم ِ عمل عسکریت پسند، خارجہ پالیسی کے سِلسلے میں، پیپلزپارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتوں پر اعتماد نہیں کرتے۔
جِس وقت، عمران خان کا، امن کارواں جنوبی وزیرستان کی طرف رواں دواں تھا، لندن کی سڑکوں پر ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ ہو رہا تھا، مظاہرین نے جوپلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے، اُن پر لِکھا تھا کہ ”برطانیہ، کرسمس سے پہلے اپنی فوج، افغانستان سے واپس بُلالے“۔۔”اتحادی فوجیں افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں“ اور یہ کہ ۔۔ ”مغربی مُلکوں کی معِیشت مفلوج ہونے کے قریب ہے“۔۔ احتجاجی مظاہرین کے نعرے بھی کچھ اِسی طرح کے تھے۔یہ محض اتفاق ہے کہ مظاہرین میں، افغانستان کی جنگ میں مارے جانے والے برطانوی فوجیوں کے لواحقین کے ساتھ ساتھ، افغان نژاد برطانوی بھی شامل تھے۔ کہ افغانستان میں امن کا قیام ، ہر قوم اور ہر عقیدے کے لوگوں کا ہے۔ بے شک حکومتوں کی پالیسی” رموزِ مصلحتِ مملکتِ خویش“ کے تابع ہے۔
خواہ کوئی کچھ بھی کہے لیکن عمران خان کا امن مارچ یا Show کامیاب رہا۔ پاک فوج نے امن مارچ ہونے دِیا۔ اچھا کِیا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں نے بھی مداخلت نہیں کی۔ وفاقی حکومت، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں بھی ”الا خاموشی نِیم رضا“ ۔کی پوزیشن میں رہیں اور طالبان، جِن کی طرف سے عمران خان کو دھمکی بھی مِلی تھی، تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہے۔ ہر طبقہ کے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ، مُلک کے ہر حصّے میں امن قائم ہو لیکن ہر سیاسی جماعت کو اپنی شناخت قائم رکھنا ہوتی ہے سو انہوں نے رکھی۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر چودھری نثار علی خان نے کہا کہ۔ ” ڈرون حملے شمالی وزیرستان میں ہو رہے ہیں لیکن عمران خان جنوبی وزیرستان جارہے ہیں“۔۔ مسلم لیگ ن کے ہی سینیٹر پرویز رشید کا مطالبہ ہے کہ۔ ” عمران خان ڈرون حملے بند کروانے تک اپنا امن مارچ جاری رکھیں“۔ مولانا فضل الرحمن نے فتویٰ دِیا کہ۔ ”عمران خان مغرب کے نمائندہ ہیں۔ اُن کا قبائلی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے “۔ مولانا فضل الرحمن نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ”امن مارچ اُس فلم کی شوٹنگ کا حصّہ ہے جو عمران خان کی سابقہ بیگم (جمائما) بنا رہی ہیں“۔ عمران خان نے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دِیا۔ سب سے زیادہ تنقید مولانا فضل الرحمن پر کی۔ اُن کی ”سیاسی دُکان“ کو موضوع بنایا۔ سوچنے کی بات تو ہے کہ، مولانا فضل الرحمن پختون ہیں اور قبائل میں اُن کا اثر و رسوخ بھی، لیکن انہوں نے حکومت اور طالبان میں پُل بننے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی۔ 2002ءاور پھر 2008 ءکے انتخابات ”پاکستان کو امریکیوں کا قبرستان بنانے کے نعرے پر لڑے“۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کا حِصّہ بھی رہے، لیکن طالبان اور حکومتِ پاکستان کی جنگ کو تماشائی کی طرح ہی دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن ، صدر (جنرل) پرویز مشرف اور پھر آصف زرداری کے حلِیف رہے لیکن انہوں نے دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے میں اپنے حلیفوں کی مدد نہیں کی۔ اِس سے قبل مولانا۔”عورت کی سربراہی“ کے خلاف سخت مُوقف اختیار کرنے کے باوجود، وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے دو بار حلیف رہے۔ وزیر اعظم نواز شریف تو خیرتھے ہی مرد اور ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے حلقہءانتخاب میں عمران خان کے کاروانِ امن کا ،ایک رات قیام اور مختلف جگہوں پر عمران خان کا خطاب، مولانا صاحب برداشت نہیں کر پائے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ” جو شخص(عمران خان) اپنی بیوی کو نہیں سنبھال سکا، وہ سیاست کیا کرے گا؟“۔ مولانا حیدری صاحب! جو شخص کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے دے، کیا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؟
عمران خان نے صدر زرداری کو ڈرانے کی کوشش کی۔۔ ”آصف زرداری! سونامی اسلام آباد بھی آسکتا ہے“۔۔ لیکن خان صاحب ! سونامی اسلام آباد تک لانے کے لئے تو آپ کو عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا ہوگی۔ محض ایک Show سے تو سونامی نہیں آجاتا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جون 1966ءمیں صدر ایوب کا ساتھ چھوڑا۔30نومبر 1967ءکو پیپلز پارٹی بنائی اور دسمبر 1970ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں، اُن کی پارٹی، قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی بن گئی۔ بھٹو صاحب کو 8سال تک حکومت میں رہنے کا تجربہ تھا۔ خاص طور پر وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے۔ بھٹو صاحب اندرونی اور بیرونی سازشوں سے نمٹنا جانتے تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ اقتدار میں آکر ، وعدے کے مطابق وہ، غریبوں کے لئے انقلاب“ نہیں لا سکے۔ یا شاید وہ لانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود عمران خان کے ساتھی اُنہیں موجودہ دور کا بھٹو ، بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں!
عمران خان 1996ءسے سیاست میں ہیں۔ 16سال ہو گئے۔ اُن کی ”کمائی“ کے تین سابق وزرائے خارجہ ہیں۔ سردار آصف احمد علی، جنہیں وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے ” پاکستان کا کسینجر“ قرار دیا تھا۔ صدر پرویز مشرف دور کے میاں خورشید محمود قصوری، جِن کی وزیرِ اعظم بننے کی خواہش پوری نہیں ہو سکی (اور جو امن مارچ کے دوران بُلٹ پروف گاڑی میں ہی رہے )۔شاہ محمود قریشی جو صدر زرداری کے ہر حُکم کے تابع رہے اور امریکہ کے بھی ۔جاوید ہاشمی سمیت، اگر یہ تینوں سابق وزرائے خارجہ، پاکستان تحریکِ انصاف کی کشتی پر سوار نہ ہو جاتے، تو شاید عمران خان نوجوان طبقے کی مدد سے سونامی لے بھی آتے۔ دراصل ہمارا ہر لیڈر جب کسی شہر میں اپنی پُوری قوّت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بہت بڑا جلسہ کر لیتا ہے، تو اعلان کرتا ہے۔ ”آج ریفرنڈم ہو گیا۔ پوری قوم نے میری پارٹی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے“۔
عمران خان اپنے کامیاب اور پُر امن مارچ کو ”ریفرنڈم“ نہ سمجھیں۔ ابھی عِشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ ہر سیاستدان کے لئے، ہر دِن ،ایک نیا امتحاں ہوتا ہے۔ 1992ءمیں ورلڈ کپ جیتنے پر عمران خان کو ٹِیم کے کپتان کی حیثیت سے شُہرت تو مِلی اور وہ ” ہیرو“ بھی کہلائے ،لیکن سیاست تو ایک طرح کا سٹاک ایکسچینج کا کاروبار ہے۔ ایک ہی غلطی سے کوئی بھی سیاستدان، ارب پتی سے کنگال بھی ہو جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو اب ” قُربانیوں کی داستان“ بن گئے ہیں اور اب صدر زرداری اُن کے ”داستان گو“ ۔۔ کئی سیاسی پارٹیاں تحریک تو بن گئی تھیں لیکن تنظیم نہیں بن سکیں۔ عام انتخابات میں لوگ آپ سے بھی پوچھیں گے کہ۔ ”عمران خان! آپ بیچتے کیا ہیں؟“

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...