رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز میں پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں پاکستانی مسلمان سالانہ اجتماع میں شریک ہونے لگے ہیں۔ عمرے کی سعادت حاصل کرنے والے بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ نوجوان پہلے سے زیادہ ڈاڑھی بڑھانے لگے ہیں۔ ہماری معزز خواتین میں حجاب کا استعمال بھی بڑھا ہے۔ مولانا طارق جمیل اور جنید جمشید مردوں میں فرحت ہاشمی کا درس خواتین میں مقبول ہوا ہے۔ پہلے پاکستان ٹیلی ویژن سے صرف پانچ منٹ کا پروگرام بصیرت ہوتا تھا۔ اب کئی چینل صرف مذہبی نشریات کیلئے وقف ہیں۔ ہر پرائیویٹ چینل سے ہفتے میں کئی مذہبی پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں فرقہ واریت میں بھی شدت آئی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کی شہ پر پاکستان میں فرقہ وارانہ تصادم ہوتے ہیں۔ جب دائیں اور بائیں بازو کی جنگ ہوتی تھی ۔ اس کا حوالہ نظریات ہوتے تھے۔ دونوں طرف سے کوشش کی جاتی تھی کہ نوجوانوں میں سنجیدہ اور فکری ادب سے شغف پیدا کیا جائے۔ روسی اور امریکی کتابوں کے تراجم سستے داموں دستیاب ہوتے تھے۔ لیکن اب سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہتھیاروں کے خوف سے فکری مباحث ختم ہوچکے ہیں۔ روشن خیال ہوں یا قدامت پسند نقطۂ نظر سطحی ہوگیا ہے۔ لٹریچر کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف لفظی جنگیں ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلوں نے اس سطحیت کو اور فروغ دیا ہے۔ طالبان یا دوسرے گروپ جو طاقت اور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس سوچ کی ظاہری شکل ہیں۔ یہ چند ہزار تک محدود ہیں لیکن اسلامی معاشرے۔ اسلامی نظام کی آرزو رکھنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ اسی سے شدت پسندوں کو مقامی طور پر اخلاقی حمایت حاصل ہوتی ہے۔
طالبان ہوں یا کوئی اور جب ہتھیار اٹھاتے ہیں تو اسکے کچھ اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ ان کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی یہ ہلاکت خیز راستہ بلاوجہ اختیار نہیں کرتا۔ پہلے طالبان پاکستان سے افغانستان گئے تھے۔ اب طالبان افغانستان سے پاکستان آئے ہیں۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان بین الاقوامی سطح پر ایک فکر کے حامل ہونگے لیکن اپنے اپنے ملکوں کے بارے میں انکا الگ الگ نقطۂ نظر ہے۔ افغان طالبان تو بنیادی طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد غیر ملکی طاقتوں نے ان سے ان کا ملک چھینا ہے۔ اس لیے وہ اسے واپس لینے کیلئے سرگرم ہیں۔ القاعدہ کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔ افغان طالبان کی حکمت عملی کو قریب سے جاننے والے یہ بتاتے ہیںکہ ان کا فلسفہ یہ ہے اسلامی دنیا میں ایک خلفشار کے بعد ہی استحکام آئیگا۔ وہ ایک زمانے میں چاہتے تھے کہ جارج بش دوبارہ برسرِ اقتدار آئیں کیوں کہ وہ جنگجو ذہنیت رکھتے ہیں اس لیے امریکہ اپنی سرزمین سے دور مختلف ممالک کو جنگوں میں الجھائے گا۔ اسطرح ایران، شام، مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر اور سوڈان میں امریکہ کیخلاف مزاحمت ہوگی۔ یہی عنصر اسلامی تشخص کی بحالی کا سبب بنے گا۔ وہ پاکستان میں بھی دارالحرب کا سماں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کانی حد تک ان کی خواہش پوری بھی ہورہی ہے۔ ان قوتوں کو یقین ہے کہ ان لڑائیوں کے بعد ہی اسلامی ملکوں میں استحکام آئے گا۔
القاعدہ اور دوسری اسلامی تنظیمیں اسلامی مملکت کیلئے باقاعدہ سیاسی نظام تشکیل دینے کی کوشش کررہی ہیں۔ ایک ہزار صفحات پر مشتمل ایک کتاب ’السیاستہ و لا دارہ‘ پشتو میں شائع ہو رہی ہے۔ جو برسوں کی مشاورت اور بحث کا نتیجہ ہے۔ اس میں موجودہ جمہوری نظام کی جگہ شورائی نظام کی حمایت کی گئی ہے۔ ایران کے انقلاب کا جائزہ لیتے ہوئے۔ اس میں سے کئی شقیں لی گئی ہیں۔ لیکن وہاں کی طرح امام کی موجودگی میں وہ بے اختیار صدر کے قائل نہیں ہیں۔ وہ امام اور سربراہ مملکت کو الگ الگ نہیں رکھنا چاہتے۔ اس کتاب میں اقلیتوں کو بھی مکمل تحفظ دینے کی بات کی گئی ہے۔ ان سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرسکتے ہیں لیکن اس سے اکثریت یعنی مسلمانوں کی عبادات میں خلل نہیں پڑنا چاہیئے۔ اس کتاب کے مندرجات عام ہونے کے بعد ہی کہا جا سکے گا کہ صدیوں سے جس اسلامی نظام کے مکمل شکل میں نہ ہونے کی شکایت کی جارہی تھی۔ کیا اس سے دور ہو جائے گی۔
ایک حلقے کے مطابق پاکستانی طالبان فی الحال نئی ریاست بنانے کے حق میں نہیں ہیں۔ بلکہ وہ بنیادی طور پر یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو استعماری ملکوں کا آلئہ کار نہیں ہونا چاہیئے۔ افغانستان کے مقابلے میں وہ پاکستان کی ارضی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں۔ افغانستان دفاعی طور پر اپنے محل وقوع اور پہاڑی سلسلوں کے باعث غیر ملکی حملہ آوروں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے جبکہ پاکستان میں میدانی علاقے زیادہ ہیں اس لیے خطرات بھی زیادہ ہیں۔ بھارت کی طرف سے بھی اور فضائی طور پر بھی۔ پاکستانی طالبان کی فکر سے بڑی حد تک آگاہی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ وزیرستان میں امارات اسلامیہ کے قیام کی حکمتِ عملی ان کی نہیں ہے۔ یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے۔ طالبان کا یہ کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد ہمیشہ سے پاکستان کے تحفظ کیلئے سینہ سپر رہے ہیں۔ افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت روکنے کیلئے وہ پاکستان کے کہنے پر جہاد میں شریک ہوئے۔ انکے بزرگ شہید ہوئے۔ املاک تباہ ہوئیں۔ اسی دور میں غیر ملکی جہادیوں کو بھی انہوں نے پاکستان کے کہنے پر مہمان رکھا۔ ہمارے ہاں قبائلی علاقوں میں پاکستان کا قانون کبھی بھی لاگو نہیں رہا۔ ان کی منشا یہی ہے کہ وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں پہلے جیسا نظام ہی بحال ہونا چاہیے۔ جس میں فوج کی مداخلت نہ ہو۔ واقفان طالبان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں یہ جو عام تاثر ہے کہ قبائلیوں میں اکثریت ان پڑھ ہے۔ یہ انتہائی غلط خیال ہے۔ مقامی طور پر بھی پڑھ رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں سے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ وہ اپنے کلچر اور اپنی روایات کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی طرف سے یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ فاٹا کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی بجائے پورے ملک کو فاٹا بنایا جارہا ہے۔
ایک فکر یہ بھی ہے کہ نائن الیون کے بعد جب مملکت پاکستان نے اپنی پالیسی بدلی۔ افغانستان میں جہاد کا سلسلہ روکا تو پاکستان کے قبائلی علاقوں سے پنجاب سے جو رضاکار مجاہدین کے طور پر جاتے تھے۔ جن کو آئی ایس آئی مامور کرتی تھی۔ آئی ایس آئی کے افسر تو پالیسی کی تبدیلی کے بعد ان ڈیوٹیوں سے ہٹا دیئے گئے۔ لیکن ان جہادیوں کو کوئی ہدایت نہیں دی گئی۔ ان سے رابطہ اچانک ختم کردیا گیا۔ پولیس، خفیہ ایجنسیاں انکے بارے میں مکمل معلومات رکھتی تھیں۔ انہیں مختلف طریقوں سے تنگ کیا جانے لگا۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں بھی ان کا تعاقب کرنے لگیں۔ ان میں سے اکثر نے پھر اپنے گروپ بنالیے اور اپنے جہادی عمل میں مصروف ہو گئے۔ جہاد کا جذبہ۔ ان کیلئے عشق تھا۔ اب بھی عشق ہے۔ مملکت کے اداروں کی نظر میں یہ جرم بن گیا۔ (2/4… جاری)